بُرہان کی برسی سے قبل جنگجوئیت کولشکری کا دھچکہ

اسلام آباد// حزب کمانڈر بُرہان وانی کی برسی سے ہفتہ بھر قبل کل جنوبی کشمیر میں جنگجوئیت کو اُسوقت ایک بڑا دھچکہ پہنچا کہ جب سرکاری فورسز نے لشکر طیبہ کے معروف کمانڈر بشیر لشکری عرف ابو عکاسہ کو ایک ساتھی سمیت مار گرایا۔لشکری کے سر پر دس لاکھ روپے کا انعام تھا اور انکے مارے جانے کو سرکاری فورسز کے لئے ایک بڑی کامیابی تصور کیا جارہا ہے۔اس دوران جنگجووں کی مدد کو آئے دو مظاہرین بھی مارے گئے ہیں جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔

ایک موقعہ پر مظاہرین لشکری کی کمین گاہ تک پہنچنے میں کامیاب بھی رہے تاہم اس دوران کسی نے پُراسرار انداز میں ایک پٹاخہ چھوڑا اور چِلاتے ہوئے کہا کہ لشکری ساتھیوں سمیت فرار ہوگئے جس سے مجمعہ بکھر گیا اور فوج کو کمین گاہ کا گھیرا تنگ کرنے کا موقعہ ملا۔

جنوبی کشمیر کے کوکرناک علاقہ میں صوف شالی گاوں کے رہائشی بشیر لشکری کو جنوبی کشمیر کے ہی دیالگام علاقہ میں ہوئی ایک جھڑپ میں مار گرایا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق دیالگام کے برینٹی بٹہ پورہ میں ایک گھر کو سرکاری فورسز نے دورانِ شب گھیر لیا تھا اور صبح پانچ بجنے پر محصور جنگجووں اور سرکاری فورسز کے مابین جھڑپ شروع ہوئی جو کئی گھنٹوں تک جاری رہنے کے بعد لشکری اور انکے ساتھی آزاد عرف دادا کے مارے جانے پر ختم ہوئی۔معلوم ہوا ہے کہ جونہی جنگجووں کے محاصرے میں آنے کی خبر پھیلی آس پروس کے لوگ بستروں سے نکل کر جنگجووں کی مدد کو آئے اور انہوں نے احتجاجی مظاہرے اور سنگبازی شروع کرکے فورسز کو الجھانا چاہا تاکہ محصور جنگجووں کو فرار ہونے کا موقعہ ملے۔فورسز نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جسکے دوران پہلے ایک خاتون ،طاہرہ،اور بعدازاں شاداب احمد نامی ایک نوجوان مارے گئے۔عینی شاہدین نے بتایا کہ شاداب کے چہرے پر گولی لگی اور انہیں اسپتال میں مردہ قرار دیا گیا۔عینی شاہدین کے مطابق ایک موقعہ پر مظاہرین لشکری کی کمین گاہ تک پہنچنے میں کامیاب بھی رہے تاہم اس دوران کسی نے پُراسرار انداز میں ایک پٹاخہ چھوڑا اور چِلاتے ہوئے کہا کہ لشکری ساتھیوں سمیت فرار ہوگئے جس سے مجمعہ بکھر گیا اور فوج کو کمین گاہ کا گھیرا تنگ کرنے کا موقعہ ملا۔معلوم ہوا ہے کہ اسکے بعد لوگوں نے پھر سے اُس مکان کے قریب جانے کے جتن کرنے کے باوجود فورسز کا گھیرا توڑ کر محصور جنگجووں تک پہنچنے میں ناکام رہے جبکہ فورسز نے کوئی نقصان اُٹھائے بغیر لشکر کمانڈر اور انکے ساتھی آزاد عرف دادا کو مار گرایا۔

ریاستی پولس کے چیف ایس پی وید نے بشیر لشکری کے مارے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے اسے سرکاری فورسز کی ایک بڑی کامیابی اور جنگجووں کے لئے شدید دھچکہ قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ بشیر لشکری پولس افسر فیروز ڈار اور انکے ساتھیوں کی ہلاکت میں ملوث تھے۔یاد رہے کہ ڈار کی گاڑی پر دو ایک ہفتے قبل جنگجووں نے گھات لگاکر حملہ کرکے انہیں موقعہ پر ہی ہلاک کردیا تھا تاہم پولس نے اس حملے کے چند ہی گھنتوں بعد لشکری کے اس حملے میں ملوث ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بشیر لشکری وادی میں سرگرم سب سے دیرینہ جنگجووں میں شمار تھے۔اُنکا تعلق کوکر ناگ کے مضافاتی گائوں صوف شالی سے تھا ۔وہ سال1999میں 16سال کی عمر میں جنگجوئوں کی صفوں میں شامل ہوکر ہتھیاروں کی تربیت حاصل کر نے کیلئے سر پار چلے گیے ۔2002میں اُنہیں اچھ بل میں پکڑا گیا اور2005میں رہا کیا گیا ۔تاہم اُنہوں نے ایک بار پھر 2009میں جنگجوئوں کی صفوں میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد ایک بار پھراُنہیں 2010میں بجہباڑہ کے نزدیک گرفتار کیا گیا ۔2014 میں رہا ہونے پر سال بھر بعد یعنی اکتوبر2015میں اُنہونے لشکر طیبہ میں شمولیت اختیار کی اور وہ جنوبی کشمیر میں تنظیم کے کمانڈر بن کر بڑے مشہور ہوگئے۔ حزب کمانڈر بُرہان وانی کی ہی طرح اُنہوں نے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور لشکر کے لئے ایک بڑا گروپ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ جنوبی کشمیر میں ابو دُجانہ کے بعد لشکر کے سب سے اہم کمانڈر تھے اور اُنکے سر پر سرکار نے 12لاکھ روپے کا انعام رکھا ہوا تھا ۔

۔2014 میں رہا ہونے پر سال بھر بعد یعنی اکتوبر2015میں اُنہونے لشکر طیبہ میں شمولیت اختیار کی اور وہ جنوبی کشمیر میں تنظیم کے کمانڈر بن کر بڑے مشہور ہوگئے۔ حزب کمانڈر بُرہان وانی کی ہی طرح اُنہوں نے بھی سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور لشکر کے لئے ایک بڑا گروپ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے۔

لشکری کو حزب کمانڈر برہان وانی کی برسی سے محض ہفتہ بھر قبل مار گرایا گیا۔گزشتہ سال 8جولائی کو مارے گئے برہان وانی کی برسی پر جنگجووں کی جانب سے حملے کئے جانے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے اور چونکہ لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید نے اس مناسبت سے پاکستان میں کئی دنوں تک ایک مہم چلانے کا پہلے ہی اعلان کررکھا ہے عین ممکن ہے کہ لشکر طیبہ بڑے پیمانے پر حملے کرنے کی کوشش کرے تاہم لشکری کے مارے جانے کے بعد تنظیم کے منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں جنگجووئیت کی نہج بدلی ہوئی ہے اور حزب المجاہدین و لشکر طیبہ مل کر کام کر رہی ہیں۔خود حزب المجاہدین کے جنگجووں کی جانب سے انٹرنیٹ پر جاری کی جاتی رہی ویڈیوز میں بشیر لشکری اور حزب المجاہدین کے جنگجووں کو ایک ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کی بڑی تعظیم کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

جھڑپ ختم ہونے پر لوگوں کی بڑی تعداد کو لشکری کے آبائی گاوں کی جانب جاتے دیکھا گیا جہاں ہزاروں لوگوں نے جذباتی انداز میں اُنکی تدفین میں حصہ لیا۔

 

 

 

 

Exit mobile version