جی ایس ٹی کے امکانی اطلاق کے خلاف کشمیر بند

سرینگر// اب جبکہ بھارت میں ٹیکس کا نیا قانون جی ایس ٹی لاگو ہوگیا ہے جموں کشمیر میں تاجروں نے اپنے تیور سخت کرتے ہوئے اس متنازہ قانون کے خلاف آج کشمیر بند کی کال دی ہے۔ کشمیری تاجروں کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے اس نئے قانون کی آڑ میں جموں کشمیر کی خصوصٰ حیثیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جائے گا بھلے ہی اس سے کسی قسم کے اقتصادی خسارے کا احتمال ہو۔

تاجروں،صنعت کاروں اور ٹرانسپورٹروں نے ایک ہوکر اس قانون کے مجوزہ نفاذ کے خلاف لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سنیچر کو ہڑتال کے ساتھ ساتھ لالچوک سرینگر میں دھرنا دیا جائے گا اور احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔ مختلف کاروباری شعبوں سے تعلق رکھنی والی16انجمنوں کےمشترکہ پلیٹ فارم کشمیر اِکنامک الائنس اور کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن نے یک آواز میں کہا ہے کہ وہ جی ایس ٹی کو موجودہ حئیت میں نافذ نہیں ہونے دینگے اور اگر سرکار چاہے تو وہ جموں کشمیر کا اپنا الگ جی ایس ٹی بناکر لاگو کرسکتی ہے تاکہ جموں کشمیر کی خصوصٰ پوزیشن کا دفاع ہو۔ جی ایس ٹی کے نفاذ کی مزاحمت کرنے والے تاجروں کا کہنا ہے کہ دفعہ370 کے تحت ریاست کو حاصل ”خصوصی پوزیشن“ کو زک پہنچانے کی کسی بھی کوشش کا توڑ کیا جائے گا۔

”اصل میں اس قانون کا اطلاق جموں کشمیر کو مالی طور پر کمزور کرنے کیلئے ہے،جبکہ نئی دہلی چاہتی ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ ہاتھوں میں کشکول اُٹھا کر اسکے سامنے حاضری دیں“۔

جمعہ کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر اِکنامک الائنس کے شریک چیئرمین فاروق احمد ڈار نے جی ایس ٹی کے ممکنہ اطلاق کے خلاف یکم جولائی کو کشمیر بند کا اعلان کیا اور کہا کہ ہڑتال کے علاوہ لالچوک میں دھرنا دیا جائے گا اور بھوک ہڑتال شروع کی جائے گی۔اُنہوں نے کہا کہ پی ڈی پی-بی جے پی سرکار آر ایس ایس جیسی فرقہ پرست جمات کے ”ایک پردھان،ایک ودھان“ والے بد نیتی پر مبنی خواب کو پورا کررہی ہے اور اس حوالے سے ریاست کے خلاف کئی سازشیں کی جا رہی ہیں۔اُنہوں نے کہا ”اصل میں اس قانون کا اطلاق جموں کشمیر کو مالی طور پر کمزور کرنے کیلئے ہے،جبکہ نئی دہلی چاہتی ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ ہاتھوں میں کشکول اُٹھا کر اسکے سامنے حاضری دیں“۔ اُنہوں نے تاہم خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کہیں یہ معاملہ2016جیسی ایجی ٹیشن کا سبب نہ بنے۔ پریس کانفرنس میں کشمیرٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن کے سابق صدر محمد صادق بقال نے کہا کہ اصولی طور پر وہ جی ایس ٹی کو لاگو کرنے کے مخالف نہیں ہیں،تاہم اس قانون کا ترمیم شدہ مسودہ عوام کے سامنے لایا جانا چاہیئے تاکہ ریاست کی مالی اور سیاسی خود مختاری متاثر ہونے سے متعلق خدشات دور ہوسکیں ۔

”جموں کشمیر کا آئین منفرد اور علیحدہ ہے لہٰذا ہم اپنا الگ جی ایس ٹی بنا اور لاگو کرسکتے ہیں جس سے ریاست کی خصوصی اور متنازعہ حیثیت کو بھی تحفظ فراہم ہو“۔

کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن کے صدر محمد یاسین خان نے پریس کانفرنس کے دوران کہا ”جموں کشمیر کو ایک منصوبہ بند طریقے سے اس ٹیکس نظام سے جوڑا جا رہا ہے۔ ہم جنگ نہیں چاہتے تاہم ریاست کی مالی خود مختاری پر کسی بھی صورت میں آنچ نہیں آنے دینگے“۔ محمد یاسین خان نے جموں کشمیر کے ”اپنے جی ایس ٹی“ کی وکالت کرتے ہوئے کہا ”جموں کشمیر کا آئین منفرد اور علیحدہ ہے لہٰذا ہم اپنا الگ جی ایس ٹی بنا اور لاگو کرسکتے ہیں جس سے ریاست کی خصوصی اور متنازعہ حیثیت کو بھی تحفظ فراہم ہو“۔اُنہوں نے کہا کہ تاجر برادری نے مشاورت کے دوران یہ فیصلہ لیا ہے کہ یکم جولائی کو کپوارہ سے کشتواڑ تک ہڑتال رہے گی۔اُنہوں نے مزید کہا کہ تاجروں کی قیادت لالچوک میں احتجاجی دھرنا بھی دے گی جبکہ دیگر تمام اضلاع میں بھی تاجرون کے نمائندگان دھرنے پر بیٹھیں گے۔

محمد یاسین خان نے ریاستی حکومت کو ”آگ سے نہ کھیلنے“ کا مشورہ دیا اور کہا کہ بصورتِ دیگر اس کے ہاتھ جل جائے گئے۔اُنہوں نے کہا”اگر سرکار نے جلد بازی،یا جبراََ اس قانون کو لاگو کرنے کی کوشش کی،تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہونگے“۔ واضھ رہے کہ تاجروں کی جانب سے اس سے قبل 17 جون کو جی ایس ٹی کے خلاف کشمیر بند کی کال دی تھی جب ریاستی اسمبلی میں اس قانون پر بحث ہونے والی تھی۔ یہ ہڑتال زبردست حد تک کامیاب رہی تھی جبکہ سرکار نے اسمبلی اجلاس میں جی ایس ٹی کا معاملہ چھیڑے بغیر ہی اجلاس کو تعزیتی قرارداد تک محدود کرکے اسے پہلے ہی دن ملتوی کردیا تھا۔ حکومت نے 4 جولئی سے اسمبلی کا اجلاس دوبارہ بلایا ہے اور اس دن جی ایس ٹی پر بحث اور ہنگامہ ہونے کا امکان ہے۔

Exit mobile version