سرینگر// ریاستی سرکار نے دعویٰ کیا ہے کہ حزبِ اختلاف نیشنل کانفرنس کو ریاست میں جی ایس ٹی کے نفاذ پر اصولی طور کوئی اختلاف نہیں ہے اور ریاست کی جملہ سیاسی پارٹیوں کا اس بات پر اتفاقہےکہ ریاست میں جی ایس ٹی کو لاگو نہ کرنے سے اقتصادی اور مالی کنفیوزن پیدا ہو گا۔
ایک سرکاری ترجمان کے مطابق جموں و کشمیر میں جی ایس ٹی کے اطلاق کیلئے اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی خاطر حکومت کی جانب سے تشکیل دئیے گئے کُل جماعتی مشاورتی گروپ کی دوسری میٹنگ آج یہاں ممبر پارلیمنٹ اور سابق نائب وزیر اعلیٰ مظفر حسین بیگ کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔
میٹنگ میں نیشنل کانفرنس کے عبدالرحیم راتھر ، سی پی آئی ایم کے ایم وائی تاریگامی ، کانگریس کے اعجاز احمد خان ، پی ڈی ایف کے حکیم محمد یاسین ، پی ڈی پی کے نظام الدین بٹ ، بی جے پی کے سنیل سیٹھی ، ڈی پی این کے غلام حسن میر اور آزاد ممبرانِ اسمبلی انجینئر رشید اور پون گپتا نے شرکت کی ۔
سابق وزیرِ خزانہ عبدالرحیم راتھر جو کہ جی ایس ٹی پر وزرائے خزانہ کی بااختیار کمیٹی کے چئیر مین بھی رہ چکے ہیں ، نے کہا کہ نیشنل کانفرنس ریاست میں جی ایس ٹی کو لاگو کرنے کیلئے اصولی طور اختلاف نہیں کرتی ہے لیکن
مظفر بیگ نے کہا ” اگر ہم ایک اعلیحدہ قانون لیکر آتے ہیں تو مرکزی حکومت کو جموں کشمیر کے حق میں ٹیکس کے اختیارات تفویض کرنے کیلئے آئین کے دو ابواب کی ترمیم کرنی پڑے گی ۔ یہ ملک بھر میں ایک بہت بڑا سیاسی مسئلہ ہو گا اس کے علاوہ ریاست جموں کشمیر کے آئین کے سیکشن پانچ کی بھی ترمیم کرنی پڑے گی جو کہ ناممکن ہے اس کے علاوہ اگر سیکشن پانچ کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے تو اس سے ریاست میں مستقبل کیلئے کئی سیاسی مسائل پیدا ہو سکتے ۔“ میٹنگ میں قانون و انصاف کے وزیر عبدالحق ، وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب اے درابو، چیف سیکرٹری بی بی ویاس ، کمشنر سیکرٹری فائنانس نوین چودھری ، کمشنر کمرشل ٹیکسز پی آئی خطیب اور خزانہ و قانون محکموں کے اعلیٰ افسران موجود تھے ۔ میٹنگ میں جی ایس ٹی نظام کے قانونی، لیجسلیٹو ، مالی ، اقتصادی اور انتظامی پہلوو¿ں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔
حکومت کا نظریہ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب اے درابو نے کہا کہ حکومت ملک کے آئین کی دفعہ 370 کے تحت جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن کو تحفظ فراہم کرنے کو یقینی بنائے گی ۔ جی ایس ٹی کے تعلق سے ڈاکٹر درابو نے کہا کہ یہ ایک جامع ٹیکس نظام ہے جو اُن 16 ٹیکسز کا متبادل ہو گا جو اس وقت مرکزی اور ریاستی سرکاریں عاید کر رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جی ایس ٹی کے تحت جن ٹیکسوں کو مجتمع کیا جائے گا اُن میں سنٹرل ایکسائیز ڈیوٹی ، ڈیوٹی آف ایکسائیز ، ایڈیشنل ڈیوٹی آف ایکسائیز ، ایڈیشنل ڈیوٹی آف کسٹمز ، سپیشل ایڈیشنل ڈیوٹی آف کسٹمز ، سروس ٹیکس ، سٹیٹ ویٹ ، سنٹرل سیلز ٹیکس ، لکشری ٹیکس ، آکٹرائی کی صورت میں انٹری ٹیکس ، انٹرٹینمنٹ ٹیکس ، ٹیکس آف ایڈورٹائیزمنٹ ، پرچیز ٹیکس ، ٹیکس آن لاٹریز اور سٹیٹ سیس شامل ہیں ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ صنعتی پالیسی کے تحت جاری ٹیکس مراعات کو جاری رکھا جائے گا اور ایل او سی کے آر پار تجارت کو موجودہ صورت میں جاری رکھا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر میں جی ایس ٹی کو لاگو نہ کرنے سے یہاں کی تجارت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے اور صارفین کو دوہرا ٹیکس ادا کرنا پڑے گا ۔ سابق وزیرِ خزانہ عبدالرحیم راتھر جو کہ جی ایس ٹی پر وزرائے خزانہ کی بااختیار کمیٹی کے چئیر مین بھی رہ چکے ہیں ، نے کہا کہ نیشنل کانفرنس ریاست میں جی ایس ٹی کو لاگو کرنے کیلئے اصولی طور اختلاف نہیں کرتی ہے لیکن پارٹی کا مطالبہ ہے کہ ریاست کی مالی خود مختاری کو تحفظ فراہم کیا جانا چاہئیے ۔
کانگریس کے اعجاز احمد خان نے کہا کہ اُن کی پارٹی نے جی ایس ٹی کے ارتقا کی بنیاد ڈالی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اس کے حق میں ہے تا ہم ریاست میں اس کے اطلاق کے تعلق سے چند خدشات بھی ہیں ۔ مظفر حسین بیگ کے نکتے کی تائید کرتے ہوئے ایم وائی تاریگامی نے کہا کہ اس سلسلے میں مشاورت انتہائی ضروری ہے تا ہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ دفعہ 370 کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جانی چاہئیے ۔
میٹنگ میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ ریاست میں جی ایس ٹی کو لاگو نہ کرنے سے اقتصادی اور مالی کنفیوزن پیدا ہو گا ۔ کُل جماعتی مشاورتی گروپ نے اس سے قبل 24 جون کو اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا تھا ۔