سرینگر// جموں کشمیر کی مرکزی جامع مسجدکو کل جمعتہ الوداع کے موقعہ پر محبوبہ مفتی کی سرکار نے مقفل کرکے یہاں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جو کہ اس مسجد کی تاریخ میں دوسری بار ہوا ہے۔ یہ ڈوگرہ دور کے زوال کے بعد پہلی مرتبہ ہورہا تھا کہ تاریخی جامع میں جمعتہ الوداع کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
چناچہ انتظامیہ نے جمعرات کی رات کو ہی جمعہ کے روز سرینگر شہر میں پانچ پولس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں کرفیو جیسی بندشیں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا اور ان میں نوہٹہ بھی تھا کہ جہاںپندرہویں صدی میں سلطان سکندرکی تعمیر کرائی ہوئی جامع مسجد واقع ہے۔ذرائع کے مطابق بندشوں کا مقصد ہی جامع میں نماز کی اجازت نہ دینا تھا۔مسجد کے ارد گر اضافی فورسز اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا جبکہ چاروں اطراف سے تار بندی کی گئی تھی۔جامع مسجد کی طرف جانے والے راستوں پر رکاوٹیں کھڑاکی گئی تھیں اور کسی بھی شخص کو اس طرف جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔
علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ جامع مسجد کے مرکزی پھاٹکوں پر قفل چڑھادئے گئے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ فجر نماز تک مسجد کھلی تھی اور یہاں معمول کے مطابق نماز بھی ہوئی لیکن اسکے فوری بعد آکر پولس نے مسجد کو مقفل کردیا۔اُنکا کہنا تھا کہ جامع کو یوں محصور دیکھ کر اُنہیں روحانی عذاب ہوتا ہے اور وہ انتہائی افسوس میں رہتے ہیں۔ کئی لوگوں نے بتایا کہ مقدس ایام پر جامع کو بند کرنے سے اُنکے جذبات انتہائی حد تک مجروح ہوتے ہیں اور اس سے بغاوت کو بھڑاوا ملتا ہے۔
سلطان زین العابدین عرف بڈشاہ کے والد سلطان سکندر کے ذرئعہ پندرہویں صدی میں بنوائی جا چکی،شہر کے نوہٹہ علاقہ میں واقع، جامع مسجد کا کشمیر کی تحریک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور جب جب یہاں بغاوت ہوئی ہے جامع مسجد کسی نہ کسی شکل میں اسکا حصہ مانی جاتی رہی ہے اور پھر اسے بھی عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
جامع مسجد میں جمعتہ الوداع(ماہِ رمضان کے آخری جمعہ) کے موقعہ پر لاکھوں مسلمان جمع ہوتے ہیں اور ایک بڑے اجتماع کا حصہ بننے کی غرض سے ترجیحی بنیادوں پر یہاں نماز پڑھتے ہیں۔ان میں خواتین کی بھی خاصی تعداد شامل رہتی ہے جنکے لئے اس وسیع اور فن تعمیر کے شاہکار نمونہ میں علیٰحدہ سے انتظام رکھا گیا ہے۔جامع کی مہتمم اوقاف کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگرچہ مسجد میں عام حالات میں بھی لوگوں کا بڑا رش رہتا ہے لیکن رمضان کے دوران اور پھر جمعتہ الوداع کے موقعہ پر با الخصوص نمازیوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور اسی حساب سے یہاں پیشگی انتظامات بھی کئے جاتے ہیں۔ کمیٹی کے ایک ممبر محمد رمضان کے مطابق اب کے بھی مسجد میں لوگوں کی بڑی تعداد متوقع تھی لہٰذا ایک دن پہلے کمیٹی نے میٹنگ کرکے انتظامات کو حتمی شکل دی تھی اور صفائی ستھرائی کے انتظام کے علاوہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو سکون سے نماز ادا کرنے کا موقعہ دینے کے لئے خیمے لگانے اور اس طرح کے دیگر فیصلے لئے گئے تھے تاہم سرکار نے مسجد کو ہی مقفل کردیا۔
سلطان زین العابدین عرف بڈشاہ کے والد سلطان سکندر کے ذرئعہ پندرہویں صدی میں بنوائی جا چکی،شہر کے نوہٹہ علاقہ میں واقع، جامع مسجد کا کشمیر کی تحریک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور جب جب یہاں بغاوت ہوئی ہے جامع مسجد کسی نہ کسی شکل میں اسکا حصہ مانی جاتی رہی ہے اور پھر اسے بھی عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔چناچہ سکھوں اور ڈوگرہ شاہی کے دور میں یہ مسجد لگاتار برسوں بند رہتی آئی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ1842میں سکھ دورکے آخری گورنر شیخ انعام الدین کے دورمیں اس تاریخی مسجد کو کھولا گیا تاہم اس دوران مسلسل11برسوں تک مسجد میں صرف نماز جمعہ ہی ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس دوران جمعہ کو کچھ گھنٹوں کیلئے ہی مسجد کو کھولا جاتا تھا اور بعد میں بند کیا جاتا تھا تاہم1898کے بعد ہی مسجد کو کھولا گیا۔
موجودہ تحریک کے دوران بھی اسے آئے دنوں نمازیوں کے لئے بند کردیا جانا ایک معمول سا بن گیا ہے۔ قریب تیس سال پہلے جموں کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہونے کے بعد سے یہ مسجد بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں کا مرکز بن کے اُبھری ہے اور ہر جمعہ کو نماز کے بعد ہزاروں لوگ جلوس نکالنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں جنہیں روکے جانے کے بعد نوجوانوں اور سرکاری فورسز کے مابین جھڑپیں یہاں ہر جمعہ کا معمول ہو گئی ہیں۔
حزب کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے پر گذشتہ سال اس مسجد کو قریب چار ماہ تک بند کردیا گیا اور یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی تاہم گذشتہ سات سال میں یہ پہلی بار ہے کہ جب جامع کو رمضان کے متبرک مہینے میں پہلے بھی جمعہ کے موقعہ پر اور اب جمعتہ الوداع کے خصوصی موقعہ پر بند کرکے یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔