اشٹنگو// بانڈی پورہ کے اشٹنگو گاوں کے لئے جمعرات کا دن بڑا منحوس ثابت ہوا کہ بستی کو ایک ہی دن سرینگر سے دو بیٹوں کی لاشیں موصول ہوگئیں۔ دلچسپ مگر افسوس ناک ہےکہ جہاں ان میں سے ایک کو بھارت مخالف جنگجووں نے ہلاک کردیاوہیں دوسرے کوبھارتی فورسزنے گولی مار کر ابدی نیند سُلادیا۔گاوں کے یہ دونوں ہی بیٹے روزگار کے سلسلے میں سرینگر میں تھے اور خون میں لت پت ہوکر سفید کپڑے میں لپٹے گاوں پہنچ گئے۔
نصیر احمد شیخ ولد غلام محی الدین نامی نوجوان سرینگر کے مضافاتی علاقہ رنگریٹ میں ایک آہنگر کی دکان پر ملازم تھے۔رنگریٹ میں کل نوجوانوں کی ایک ٹولی نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور پھر یہاں سے گذرنے والی سرکاری فورسز پر سنگ برسائے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ پتھراو بہت شدید نہیں تھا تاہم سیما سرکھشا بل یا ایس ایس بی نے آو دیکھا نہ تاو،مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جن میں سے ایک نصیر احمد کے سینے میں پیوست ہوگئی۔حالانکہ نصیر کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ نصیر احتجاجی مظاہرے کا حصہ بھی نہیں تھے بلکہ وہ تب دکان بند کررہے تھے کہ جب اُنہیں براہِ راست نشانہ بناتے ہوئے گولی مار دی گئی۔رنگریٹ میں لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے نصیر کے ایک پروسی نے بتایا”وہ بیچارہ تو وہاں مزدوری کرنے گیا ہوا تھا،سنگ بازی کیا کرتا،ہم نے جو پتہ کیاہے اُسکے مطابق حالات کشیدہ ہونے پر رنگریٹ میں دکانیں بند ہورہی تھیں اور نصیر بھی اپنے مالک کی دکان بند کرنے لگا تھا کہ جب اُنہیں گولی مار دی گئی ہے“۔
گاوں والے نصیر کو دفناکر گھروں کو نہیں لوٹے ہیں بلکہ اُنہیں گاوں کے ایک اور بیٹے کی لاش کا انتظار ہے۔چناچہ کئی لوگ آپس میں کہہ رہے تھے”اب گھر کیا لوٹنا ابھی سُنا ہے کہ وہ لوگ راستے میں ہیں،آتے ہی ہونگے بس “۔اُنہیں انتظار تھا شہزاد دلاور صوفی کی لاش کاکہ جنہیں نصیر کے بھارتی فورسز کی گولی کا شکار ہونے کے کچھ ہی گھنٹوں بعدبھارت مخالف جنگجووں نے رنگریٹ سے محض دو ڈھائی کلومیٹر دور حیدرپورہ میں گولی مار کرہلاک کردیا۔
اُنہوں نے کہا کہ نصیر کو ایک خوش اخلاق اور ملنسار نوجوان کے بطور جانا جاتا تھا اور وہ اپنے کام سے کام رکھنے والے بندے تھے۔اُنکے ایک رشتہ دار نے بتایا”ابھی کچھ ماہ پہلے ہی تو شادی ہوئی تھی اُسکی،ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا ہے شادی ہوئے“۔
نصیر کو زخمی حالت میں جہلم ویلی اسپتال پہنچایا گیا تھا جہاں ابتدائی مرہم پٹی کے بعد اُنہیں فوری طور میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ منتقل کیا گیا تھا تاہم ا±نکی دوران شب موت واقع ہوگئی۔ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ نذیر کے دل کے قریب گولی لگی تھی اور وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔اُنہوں نے کہا کہ زخمی نوجوان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی جو مگر کامیاب نہیں ہو سکی۔اُنکے سوگواروں میں اُنکی نئی نویلی دُلہن ،تین بھائی اور ادھیڑ عمر کے والدین ہیں۔
”اب دیکھئے کہ کیا حال ہوا ہے کشمیر کا ،ہمارے گاوں کے ایک لڑکے کو بھارت کے لئے کام کرنے کے لئے مارا گیا اور ایک کو بھارت نے مار ڈالا….یہ کشمیر کے درد کو سمجھنے کے لئے کافی ہے“۔
نصیر کی ایک کمبل میں لپٹی لاش یہاں پہنچی تو گاوں میں کہرام مچ گیا،احتجاجی مظاہرے ہوئے اور پھر سینکڑوں لوگوں نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ اُنہیں قبر میں اُتار کر منوں مٹی تلے ہمیشہ کے لئے سُلادیا۔کئی بزرگ کہہ رہے تھے”یہ عمر تو تھی نہیں اس بچے کے دفنائے جانے کی،لیکن کوئی کیا کرسکتا ہے“۔
گاوں والے نصیر کو دفناکر گھروں کو نہیں لوٹے ہیں بلکہ اُنہیں گاوں کے ایک اور بیٹے کی لاش کا انتظار ہے۔چناچہ کئی لوگ آپس میں کہہ رہے تھے”اب گھر کیا لوٹنا ابھی سُنا ہے کہ وہ لوگ راستے میں ہیں،آتے ہی ہونگے بس “۔اُنہیں انتظار تھا شہزاد دلاور صوفی کی لاش کاکہ جنہیں نصیر کے بھارتی فورسز کی گولی کا شکار ہونے کے کچھ ہی گھنٹوں بعدبھارت مخالف جنگجووں نے رنگریٹ سے محض دو ڈھائی کلومیٹر دور حیدرپورہ میں گولی مار کرہلاک کردیا۔صوفی پولس کی آئی آر پی کے سپاہی تھے اور وہ اُسوقت پولس پارٹی کا حصہ تھے کہ جس پر شام گئے جنگجووں نے اچانک حملہ کردیا۔صوفی اور اُنکے ایک اور ساتھی زخمی ہوگئے،حالانکہ اُنکے ساتھی کی ران میں گولی لگی ہے اور وہ اسپتال میں زیرِ علاج ہیں جہاں اُنکی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے تاہم شہزاد دلاور کی قسمت خراب تھی کہ ایک گولی اُنکے پیٹ کو چیرتی ہوئی نکل گئی اور وہ ڈاکٹروں کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی جانبر نہیں ہوسکے۔
ایک ہی دن دو بیٹوں کی لاشیں ملنے پر اشٹنگو ماتم کُناں ہے اور اس گاوں کا یہ ماتم اپنے آپ میں کشمیر کی ایک وسیع کہانی سموئے ہوئے ہے۔جیسے کہ یہاں کے ایک بزرگ نے کہا”اب دیکھئے کہ کیا حال ہوا ہے کشمیر کا ،ہمارے گاوں کے ایک لڑکے کو بھارت کے لئے کام کرنے کے لئے مارا گیا اور ایک کو بھارت نے مار ڈالا….یہ کشمیر کے درد کو سمجھنے کے لئے کافی ہے“۔