سرینگر// وادی کی تاجر برادری نے جی ایس ٹی کے مجوزہ قانون کو کسی بھی حال میں لاگو کئے جانے کی اجازت نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے اسکے خلاف سنیچر کے لئے کشمیر بند کی کال دی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اس قانون کی آڑ میں ریاستی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے راست طریقے سے بھارت کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے جسکی وہ کسی بھی حد تک مخالفت و مزاحمت کرینگے۔
کاروباریوں کی ایک انجمن کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینوفیکچررس فیڈریشن کے صدر یٰسین خان نے کل یہاں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا ’’جموں کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے ،اسکا بھارت کی طرح ہی اپنا الگ آئین اور اپنے علیٰحدہ قوانین ہیں۔ سرکار کی نیت سے لگتا ہے کہ وہ جی ایس ٹی آڑ میں یہاں راست طریقے سے بھارتی قانون نافذ کرنا چاہتی ہے جس سے ریاست کی متنازعب حیثیت متاثڑ ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ہم اُنہیں کہنا چاہتے ہیں کہ ایسی کسی بھی کوشش سے باز رہیں نہیں تو کشمیر پھر اُبلنے لگے گا“۔
’’یہاں کاروباری حلقہ تو تب ہی سے اقتصادی نقصان پرداشت کرتا آیا ہے کہ جب بھارت کشمیر میں داخل ہوگیا تھا۔ گزشتہ تیس سال کی تحریک میں تو یہاں کا کاروبار مجموعی طور چھ سال بند رہا لیکن کیا اس سے ہم ٹوٹ گئے؟ …. نہیں۔ ہم اب بھی مزید نقصان اُٹھانے پر تیار ہیں لیکن اپنے ٹیکس اختیارات بھارت کے سامنے سرنڈر کرنے پر تیار نہیں ہوسکتے“۔
بھارت میں یکم جولائی سے گُڈس اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) نام کا نیا ٹیکس قانون لاگو ہونے جارہا ہے اور محبوبہ مفتی کی قیادت والی سرکار اُسی دن سے اسے جموں کشمیر میں بھی لاگو ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔ حالانکہ تاجر برادری کے علاوہ حزبِ اختلاف نے بھی اسکی شدید مخالفت کی ہے۔ معاملے کو لیکر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لئے سرکار نے گزشتہ ہفتے ایک کُل جماعتی اجلاس طلب کیا تھا جس میں حزبِ اختلاف نے ایک بار پھر سرکار کو خبردار کیا اور یہ اجلاس کوئی مقصد حاصل کئے بنا ختم ہوگیا۔ سرکار نے اب جی ایس ٹی کے مجوزہ نفاذ کو زیرِ بحث لانے کے لئے 17 جون سے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہوا ہے تاہم تاجروں نے اس دن ریاست گیر ہڑتال کی کال دیتے ہوئے اسمبلی کا گھیراو کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کہیں جی ایس ٹی نظام سے الگ رہنے کی صورت میں ریاست کو مالی خسارے کا سامنا تو نہیں کرنا پڑے گا یٰسین خان نے کہا کہ ریاست کا کاروباری حلقہ کسی بھی قیمت پر ریاست کے ٹیکس قوانین بھارت کے سامنے سرنڈر نہیں ہونے دے سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سرکار نے اُنسے بھی کہا ہے کہ مجوزہ قانون کے ساتھ جُڑنے میں ریاست کا فائدہ اور اس سے علیٰحدہ رہنے میں نقصان ہے تاہم ’’ ہم اُنسے یہ کہ رہے ہیں کہ ریاست اپنا علیٰحدہ جی ایس ٹی قانون بھی تو بناسکتی ہے لیکن وہ اس بات پر آمادہ نہیں ہیں“۔ ریاست کو سیاسی طور زک پہنچانے والے کسی بھی اقدام پر سمجھوتے کے لئے تیار نہ ہونے کی فیصبہ کُن بات کرتے ہوئے خان نے مزید کہا ’’یہاں کاروباری حلقہ تو تب ہی سے اقتصادی نقصان پرداشت کرتا آیا ہے کہ جب بھارت کشمیر میں داخل ہوگیا تھا۔ گزشتہ تیس سال کی تحریک میں تو یہاں کا کاروبار مجموعی طور چھ سال بند رہا لیکن کیا اس سے ہم ٹوٹ گئے؟ …. نہیں۔ ہم اب بھی مزید نقصان اُٹھانے پر تیار ہیں لیکن اپنے ٹیکس اختیارات بھارت کے سامنے سرنڈر کرنے پر تیار نہیں ہوسکتے“۔ اُنہوں نے مزید کہا ’’ہمیں ایک بھارت – ایک ٹیکس کا نعرہ منظور نہیں ہے“۔
سرکار نے گزشتہ ہفتے ایک کُل جماعتی اجلاس طلب کیا تھا جس میں حزبِ اختلاف نے ایک بار پھر سرکار کو خبردار کیا اور یہ اجلاس کوئی مقصد حاصل کئے بنا ختم ہوگیا۔ سرکار نے اب جی ایس ٹی کے مجوزہ نفاذ کو زیرِ بحث لانے کے لئے 17 جون سے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہوا ہے تاہم تاجروں نے اس دن ریاست گیر ہڑتال کی کال دیتے ہوئے اسمبلی کا گھیراو کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
ریاستی سرکار کے اس دعویٰ کو،کہ اسکے اور تاجروں کے مابین جی ایس ٹی کے حوالے سے اتفاق ہوا ہے، رد کرتے ہوئے تاجروں کے قائد نے کہا ’’ جی ایس ٹی کے حوالے سے ہمارا موقف بے بدل ہے۔ ہم نے وزیرِ خزانہ سے واضح کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام نہ کریں کہ جس سے ریاست کی متنازعہ حیثیت پر حرف آتا ہو،حالانکہ تب اُنہوں نے ہمارا مطالبہ مان لیا تھا لیکن ابھی جو سرکار کرنے جارہی ہے وہ اس سب کے برعکس ہے“۔