جنگِ بدر کے دن حملے،کیا جنگجو 90کی یاد تازہ کرنا چاہتے تھے؟

فائل فوٹو

اسلام آباد// (محمد سہیل) اب جبکہ سرکاری فورسز نے کریک ڈاون اور اس طرح کی دیگر سرگرمیوں کو بحال کرکے وادی میں نوے کی دہائی کی یادیں تازہ کرنا شروع کیا ہے جنگجووں کو مساوی انداز میں ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے محسوس کیا جا سکتا ہے۔چناچہ 17رمضان، جو تاریخ میں جنگِ بدر کی وجہ سے اہمیت کا حامل ہے،کو جنوبی کشمیر میں پے درپے حملوں کو بعض حلقے اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔

مارچ13منگلوار سنہ 624کو یہ سترہ رمضان کا دن تھا کہ جب پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میںجنگِ بدر لڑی اور جیتی گئی۔یہ جنگ تاریخِ اسلام کے سبھی غزوات میں سے اہم اور تاریخی ہے اور اسے ایک ایسا فیصلہ کُن معرکہ سمجھا جاتا ہے کہ جس میں پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے گنتی کے ساتھیوں کو براہِ راست قدرت کی مدد شامل رہی اور وہ غیر متوق اور حیرانکن انداز میں فاتح ہوگئے۔

”نوے کی دہائی میں تو کسی دن کئی کئی واقعات پیش آتے تھے،تب آج کے مقابلے میں بہت بڑے حملے ہوتے تھے۔میرے خیال میں ہم ان دونوں(تب کے اور آج کے حملوں )کا موازنہ نہیں کرسکتے ہیں“۔ …. یوسف جمیل

اتفاق کی بات ہے کہ جب منگل کوسوپور سے لیکر پلوامہ سے ہوتے ہوئے پہلگام تک پے درپے جنگجوئیانہ حملے ہوئے یہ بھی 17رمضان اور منگل کا دن اور انگریزی کلینڈر کی 13تاریخ تھی۔جنگجووں کی جانب سے کم از کم پانچ حملے کئے گئے جن میں پولس کے چار اور سی آر پی ایف کے آٹھ اہلکار زخمی ہوگئے جبکہ جنگجو چار رائفلیں اُڑالینے میں بھی کامیاب ہوگئے۔پے درپے ہوئے ان حملوں کو دیکھتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر دیگر کئی علاقوں میں حملے ہونے کی بھی خبریں گشت میں آیں جو تاہم بعدازاں محض افواہیں ثابت ہوگئیں۔

اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر ایک سینئر صحافی،جو نوے کی دہائی کی عسکریت کی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں،نے بتایا کہ منگل کو ہوئے حملے بلا منصوبہ اور اتفاقیہ نہیں تھے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کارروائیاںاسی دن(جنگ بدر کے موقعہ پر) محتاط منصوبے کے تحت کی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو نوے کی دہائی کی عسکریت کی یاد دلائی جائے۔مذکورہ صحافی نے مزید کہا ہے کہ نوے کی دہائی میں 17رمضان کو ہر سال سرکاری فورسز پر خصوصیت کے ساتھ ،اُن دنوں ایکشن کہلائے جانے والے،حملے کئے جاتے تھے۔اُنکا کہنا ہے کہ اُسوقت کے جنگجو اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ اس دن حملے کئے جائیں اور یہ جنگ بدر کی یاد تازہ کرنے کا اُنکا انداز تھا۔
بی بی سی کے سابق نامہ نگار یوسف جمیل،جو کشمیر کی جنگجوئیت کَور کرتے رہے ہیں،نے تاہم نوے کی دہائی اور آج کے حملوں میں کوئی مشابہت نہ دیکھتے ہوئے کہا کہ اُسوقت بہت زیادہ اور بڑے حملے ہوا کرتے تھے۔اُنکا کہنا ہے”نوے کی دہائی میں تو کسی دن کئی کئی واقعات پیش آتے تھے،تب آج کے مقابلے میں بہت بڑے حملے ہوتے تھے۔میرے خیال میں ہم ان دونوں(تب کے اور آج کے حملوں )کا موازنہ نہیں کرسکتے ہیں“۔

منگل کو ہوئے حملے بلا منصوبہ اور اتفاقیہ نہیں تھے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کارروائیاں اسی دن(جنگ بدر کے موقعہ پر) محتاط منصوبے کے تحت کی گئی ہیں تاکہ لوگوں کو نوے کی دہائی کی عسکریت کی یاد دلائی جائے …. سینئر صحافی

2002کے17رمضان کو جموں کشمیر میں عسکری حملوں کے اعتبار سے سب سے خونین دن مانا جاتا ہے کہ اس دن سرینگر اور یہاں سے دور بانہال میں ہوئے دو حملوںمیں آٹھ فورسز اہلکاروں کو ہلاک اور دیگر نو کو زخمی کردیا گیا تھا۔اُس دن سرینگر کے رگل چوک میں واقع پمپوش ہوٹل میں سی آر پی ایف کی 113ویں اور92ویں بٹالین کو لشکر طیبہ کے جنگجووں نے نشانہ بناکر یہاں 6اہلکاروں کو ہلاک اور دیگر9کو زخمی کردیاتھا۔نوے سے لیکر 2000تک کی عسکریت کے گواہ رہے لوگوں کے مطابق اُس دوران میں جنگِ بدر کا دن عام لوگوں کے لئے بھی احتیاط کا ہوا کرتا تھا کیونکہ کہیں نہ کہیں پر سرکاری فورسز کو نشانہ بناکر کر جنگجووں کی طرفسے حملے کرنا طے تھا۔اسلام آباد کے ایک شخص ،غلام حسن،کہتے ہیں”تب اس دن کو اکثر دکانیں بند رہتی تھیں کیونکہ فورسز پر حملہ ہونے کے بعد وہ عام لوگوں پر نزلہ گراتے تھے،بہت خوف ہوتا تھا“۔اُنکا کہنا ہے کہ سرکاری فورسز کے کیمپوں کے قریب رہنے والے اکثر لوگ اس دن رشتہ داروں کے ہاں چلے جاتے تھے تاکہ وہ گولیوں کے تبادلے میں نہ پھنسیں اور پھر سرکاری فورسز کے عتاب کا نشانہ نہ بنیں۔

”اس دن تو خطرناک حملے ہوتے رہے ہیں اور مجھے یاد ہے کہ 2003یا 2004میں اس دن سات پولس والے ہلاک ہوگئے تھے،موجودہ صورتحال کسی بھی طرح تشویشناک نہیں ہے“ …. ایس پی پانی

بض سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ گئے منگل کے حملے کشمیر تنازعے کے حوالے سے ایک نئی شروعات ثابت ہو سکتے ہیں۔ایسا سوچنے والے ایک تجزیہ نگارراو فرمان علی کا کہنا ہے”ہمیں کچھ انتظار کرکے یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ بس نوے کی طرز کا ایک دن تھا یا ہمیں (جنگجووں کی نئی)حکمتِ عملی کے تحت اس طرح کے مزید حملے دیکھنا ہونگے“۔

جنوبی کشمیر میں پولس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل(ڈی آئی جی) ایس پی پانی کا تاہم کہنا ہے کہ حالات تشویشناک نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں”یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے،نوے کی دہائی میں ہی نہیں بلکہ 2000میں بھی تو 17رمضان کے موقعہ پر اس طرح کے حملے ہوتے آئے ہیں۔اُسکے مقابلے میں تو منگل کو ہونے والے حملے اُتنے شدید بھی نہیں تھے“۔اُنہوں نے کہا کہ جنگجووں کے لئے پورا دن حملے کرنا ممکن نہیں تھا اور اُنہوں نے دیر گئے کچھ علاقوں میں نشانہ لگایا ہے….اور وہ بھی دور دور سے ہی“۔اُنکا کہنا ہے”اس دن تو خطرناک حملے ہوتے رہے ہیں اور مجھے یاد ہے کہ 2003یا 2004میں اس دن سات پولس والے ہلاک ہوگئے تھے،موجودہ صورتحال کسی بھی طرح تشویشناک نہیں ہے“۔حالیہ حملوں کی جانب اشارے کے ساتھ اُنہوں نے کہا”یہ محض ملی ٹینسی کا ایک نیا دور ہے جو بہت دیر تک باقی نہیں رہے گا“۔(بشکریہ کشمیر ریڈر)

Exit mobile version