پولس کے ہاتھوں ڈاکٹر کی پٹائی،ہڈون اسپتال میں ہنگامہ

سرینگر// ایس ایم ایچ ایس یا عرفِ عام میں ہڈون اسپتال کے ڈاکٹروں نے ایک پولس افسر اور اُنکے محافظ دستے پر اُنکے ایک ساتھی ڈاکٹرکی دورانِ ڈیوٹی زبردست پٹائی کرنے کا الزام لگایا ہے۔اس واقعہ کے خلاف احتجاج کے بطور ڈاکٹروں نے کل اسپتال میں کام چھوڑ ہڑتال شروع کی اور زبردست احتجاجی مظاہرے کئے تاہم انتظامیہ کی جانب سے معاملے کی تحقیقات کرائے جانے کی یقین دہانی کے بعد فی الحال اس معاملے کو ٹھنڈا کردیا ہے۔

دورانِ شب مذکورہ پولس افسر اپنے محافظوں سمیت دوبارہ ڈاکٹر اویس کے کمرے میں داخل ہوگئے اور کشھ کہے بغیر اُنکی پٹائی کرنے لگے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ داکٹر اویس کی لگاتار آدھے گھنٹے تک پٹائی کی جاتی رہی یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگئے۔

احتجاجی ڈاکٹروں نے بتایاکہ منگل کو پولیس تھانہ کرن نگر سے وابستہ ایک افسر اپنے محافظوں سمیت ڈاکٹر اویس وانی کے کمرے میں آئے اور اُنہیں اسپتال میں داخل اُنکے کسی مریض کا علاج کرنے کو کہا۔ ڈاکٹر اویس وانی نے اسپتال میں داخل علیل مریضہ کا ملاحظہ کرکے اُنہیں بخار سے تپتا پاکر ضروری ادویات تجویز کرکے چلے گئے۔ڈاکٹروں نے بتایا کہ دورانِ شب مذکورہ پولس افسر اپنے محافظوں سمیت دوبارہ ڈاکٹر اویس کے کمرے میں داخل ہوگئے اور کشھ کہے بغیر اُنکی پٹائی کرنے لگے۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ داکٹر اویس کی لگاتار آدھے گھنٹے تک پٹائی کی جاتی رہی یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگئے۔
احتجاجی ڈاکتروں نے الزام لگایا کہ وہ بدھ کی صبح ایف آئی آر کے اندراج کے لئے تھانہ پولس کرن نگرپہنچے لیکن پولس نے اپنے افسر کے خلاف معاملہ درج کرنے سے صاف انکار کردیا۔خود ڈاکٹر اویس نے بتایا” ہم ایف آئی آر درج کرنے کے لئے کرن نگر پولیس اسٹیشن گئے تھے لیکن وہاں تعینات اہلکاروں نے یہ کہہ کرانکار کیا کہ وہ اپنے افسر کے خلاف کیس درج نہیں کرسکتے“۔ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان حالات میں وہ کام نہیں کرسکتے ہیں لہٰذا جب تک ملزم افسر کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی وہ احتجاج پر بنے رہیں گے۔چناچہ ایک طرف اسپتال میں ڈاکٹروں نے احتجاج شروع کیا تو دوسری جانب میڈیکل کالج میں زیر تعلیم طلبہ نے بھی مذکورہ واقعہ کے خلاف کلاسوںکا بائیکاٹ کیا اور احتجاجی مظاہروں میں شامل ہوگئے۔ احتجاجی طلبہ ملوث پولس افسراور اُنکے محافظوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے تھے۔

اگر ہمیں لگا کہ غنڈہ گردی کرنے والے پولس افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو پھر میڈیکل کالج سے وابستہ سبھی اسپتالوں میں کام چھوڑ ہڑتال کی جائے گی جس میں ڈاکٹروں کے علاوہ طبی اور نیم طبی عملہ بھی ہمارے ساتھ ہوگا

اسپتال میں کام کاج رُک جانے اور احتجاج کی خبر پھیلتے ہی پولس اور میڈیکل کالج کے اعلیٰ افسران کی ایک ہنگامی میٹنگ منعقد ہوئی تاہم میٹنگ میں کیا ہوا کسی نے کچھ نہیں بتایا۔ڈی آئی جی وسطی کشمیر غلام حسن بٹ نے کہا ” اس کیس کے بارے میں آپ ایس ایس پی سے رابطہ کریں ، اُنکے پاس پوری جانکاری ہے تاہم ایس ایس پی سرینگر امتیاز اسمائیل سے رابطہ کرنے کی بار بار کوششوں کے باﺅجود بھی ان سے رابطہ نہیں ہوسکا۔
صدر اسپتال کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ ڈاکٹر نذیر چودھری نے واقعہ کے بارے میں کوئی بھی جانکاری دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ” پرنسپل میڈیکل کالج نے ہمیں سخت ہدایت دی ہے کہ ہم واقعے کے بارے میں کوئی بھی بیان جاری نہ کریں “۔ اُنہوں نے کہا ” آپ پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج سے ہی رابطہ کریں“۔پرنسپل گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر ڈاکٹر ثامیہ رشید نے کہا” ایس ایس پی کا کہنا ہے کہ وہ مذکورہ واقعہ کی تحقیقات کرائیں گے اور تحقیقات میں اگرکسی کو ملوث پایا جائے گا تو اُسکے خلاف سخت کارروائی ہوگی “۔ ڈاکٹر ثامیہ رشید نے کہا” میں نے ڈویڑنل کمشنر ، آئی جی پی، ایس ایس پی سرینگرکوتحریری طور بھی اس واقعہ کے بارے میں اطلاع دی ہوئی ہے اور مجھے یقین دلایا گیاہے کہ مذکورہ واقعہ کی تحقیقات ہوگی اور قصورواروں کو سزا دی جائے گی“۔

احتجاجی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پرنسپل کی یقین دہانی کے بعد اُنہوں نے فی الحال انتظار کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر سفید اپرن پہنے ہوئے ایک ڈاکٹر نے بتایا”ہم ابھی دیکھ رہے ہیں کہ اس واقعہ کی تحقیقات ہوتی بھی ہے کہ نہیں اور اگر ہمیں لگا کہ غنڈہ گردی کرنے والے پولس افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تو پھر میڈیکل کالج سے وابستہ سبھی اسپتالوں میں کام چھوڑ ہڑتال کی جائے گی جس میں ڈاکٹروں کے علاوہ طبی اور نیم طبی عملہ بھی ہمارے ساتھ ہوگا“۔

Exit mobile version