سرینگر// نئے ٹیکس قانون کے ریاست میں نفاذ کو لیکر ریاست میں ماحول گرم ہوتا جارہا ہے اور یہ ایک ایسا بم بنتا جارہا ہے کہ جس کی ٹِک ٹِک سرکار کی نیند اُڑانے لگی ہے اور جسکے پھٹ جانے سے ایک بھیانک آگ بھڑکنے کا احتمال ہے۔حزبِ اختلاف نیشنل کانفرنس نے جی ایس ٹی کی مخالفت میں کسی بھی حد تک جانے کا اعلان کیا ہے جبکہ تاجروں اور صنعت کاروں کی تنظیموں نے بھی سخت تیور دکھاتے ہوئے 17جون کے لئے(جب ریاستی سرکار نے جی ایس ٹی پر بحث کے لئے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہوا ہے)ہڑتال کی کال دی ہے۔اس دوران مزاحمتی قیادت نے بھی جی ایس ٹی کے حوالے سے خاموشی توڑتے ہوئے میدان میں آکراسے کشمیریوں کو محتاج بنائے جانے کی ”بھارتی حکمرانوں کی سازش“قرار دیا ہے۔
تاجروں کے تحفظات اور خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے17جون کو مکمل ہڑتال کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیرِ خزانہ عبدالرحیم راتھر نے کل یہاں ایک پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کی جانب سے جی ایس ٹی کے نفاذ کی کسی بھی حد تک مزاحمت کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ موجودہ حیئت میں یہ قانون ریاست کی ”خصوصی حیثیت اور مالی خود مختاری“پر ایک کاری ضرب ہے۔اُنہوں نے کہا”جی ایس ٹی کو موجودہ حیئت میں نافذ کرنا آگ سے کھیلنے کت مترادف ہے،ہم اس طرح کے کسی بھی اقدام کی کسی بھی حد تک مزاحمت کرینگے“۔اُنہوں نے کہا کہ موجودہ سرکار جی ایس ٹی کے حوالے سے انتہائی حد تک ابہام کی شکار ہے اور یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس قانو ن کے ساتھ کیا کیا جائے اور اسے کس طرح نافذ کیا جائے۔وزیرِ خزانہ حسیب درابو کی جانب سے اُنکے سرگرم سیاست میں آںے سے قبل مختلف اخباروں کے لئے لکھے گئے مضامین کا حوالہ دیتے ہوئے عبدالرحیم راتھر نے کہا کہ خود درابو یہ بات وضاحت کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کی صورت میں ریاست کا مالی اور سیاسی خسارہ ہوگا۔اُنہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اگر درابو نے خود یہ باتیں واضھ کی ہیں تو پھر اب جی ایس ٹی کا نفاذ درست کیسے ہوگیا ہے۔اُنہوں نے کہا”جی ایس ٹی نافذ کرنے کے بعد وزیرِ خزانہ (دفعہ370کے تحت)ریاست کی خصوصٰ حیثیت کا بچاو کیسے کرینگے“۔اُنہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف کسی بھی صورت میں ریاست کے ٹیکس اختیارات کو سرنڈر نہیں ہونے دے گا۔
”جی ایس ٹی کے نفاذ کی صورت میں ریاست کی ٹیکس انتظامیہ تبدیل ہوگی اور اسکا بڑا حصہ بھارت سرکار کو منتقل ہوجائے گا۔ہماری پارٹی اسمبلی میں اسکی شدید مخالفت اور مزاحمت کرے گی“۔
جی ایس ٹی کے تکنیکی پہلووں پر بات کرتے ہوئے کئی مرتبہ وزیرِ خزانہ رہے عبدالرحیم راتھر نے کہا”جی ایس ٹی کے نفاذ کی صورت میں ریاست کی ٹیکس انتظامیہ تبدیل ہوگی اور اسکا بڑا حصہ بھارت سرکار کو منتقل ہوجائے گا۔ہماری پارٹی اسمبلی میں اسکی شدید مخالفت اور مزاحمت کرے گی“۔اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے جی ایس ٹی کے نفاذ کا باضابطہ فیصلہ ہونے سے پہلے ہی تاجروں کو مجوزہ قانون کے تحت اپنا اندراج کرنے کی ہدایات دینا شروع کیا ہے۔وزیرِ اعلیٰ کی جانب سے گزشتہ روز جی ایس ٹی کے نفاذ پر مشاورت کے لئے بلائے گئے کُل جماعتی اجلاس کا تذکرہ کرتے ہوئےراتھر نے کہا کہ حزبِ اختلاف کی سبھی جماعتوں نے متفقہ طور سرکار پر واضھ کردیا تھا کہ وہ ریاست کی ”خصوصی حیثیت اور مالی خود مختاری“پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں لہٰذا اسکا خیال رکھا جانا چاہیئے۔اُنہوں نے کہا”پی ڈی پی کے سینئر لیڈر مظفر حسین بیگ نے تو ہمارے خدشات کو قبول کیا اور برملا کہا کہ حزبِ اختلاف کی رائے صحیح ہے“۔اُنہوں نے دوٹوک کہا کہ جی ایس ٹی کو موجودہ صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا ہے لہٰذا اگر سرکار اسے نافذ کرنا ہی چاہتی ہے تو پھر اسے پہلے ترمیم شدہ بِل سامنے لانا چاہیئے۔
” اس حوالے سے بعض ریاستی وزراءکو ناگپور والوں نے خاص طور سے اپنا آلہ¿ کار اور ہمنوا بنالیا ہے اور وہ انہیں سبز باغ دکھا کر جی ایس ٹی ریاست میں نافذ کرانے میں استعمال کررہے ہیں۔ بھارتی پالیسی سازوں کو کشمیریوں کی ترقی اور خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے اور وہ ہر سطح پر ان کے خلاف سازشیں رچارہے ہیں“۔
اس دوران تجارتی و صنعتی انجمنوں نے سخت تیور دکھاتے ہوئے17جون کو کشمیر بند اور اسمبلی گھیراﺅ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کی مالی اور سیاسی خود مختاری کو کسی بھی صورت میں داﺅ پر نہیں لگایا جائے گا۔کشمیر اکنامک الائنس،کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن اور کشمیر چیمبر آف کامرس ایند انڈسٹریز نے کہاہے کہ ریاست کی” سیاسی اور مالی خود مختاری “پر ضرب لگانے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے گا۔ الائنس کے شریک چیئرمین فاروق احمد ڈار نے بتایا کہ ایک منصوبے کے تحت مخلوط سرکار کشمیر میںجی ایس ٹی کولاگو کر رہی ہے تاکہ ریاستی عام بالخصوص وادی کے لوگوں کو دہلی کے سامنے کشکول اُٹھانے پر مجبور کیا جائے۔اُنہوں نے کہا کہ موجودہ ہیت میں جی ایس ٹی کو لاگو کرنا زہر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔اُنہوں نے تاجروں اور صنعت کاروں کے علاوہ عام لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو سر سری نہ لیں،بلکہ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کریںجس سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو زک پہنچانے کی کوششیں کی جا رہی ہے۔ کشمیر اکنامک الائنس نے تمام تاجروں سے اپیل کی کہ وہ17جون کو پریس کالونی میں جمع ہوجائے جہاں سے اسمبلی کے مجوزہ اجلاس کے دوران گھیراﺅ کیا جائے گا۔
وزیرِ خزانہ حسیب درابو کی جانب سے اُنکے سرگرم سیاست میں آںے سے قبل مختلف اخباروں کے لئے لکھے گئے مضامین کا حوالہ دیتے ہوئے عبدالرحیم راتھر نے کہا کہ خود درابو یہ بات وضاحت کے ساتھ لکھ چکے ہیں کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کی صورت میں ریاست کا مالی اور سیاسی خسارہ ہوگا۔
کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن دھڑے کے صدر بشیر احمد راتھر نے کہا ہے کہ جی ایس ٹی کو ریاست میں نافذ کرنے سے جموں کشمیر کی آئینی اور مالی حیثیت کو زخ پہنچنے کا احتمال ہے۔ہنگامی اجلاس کے دوران یہ محسوس کیا گیا کہ دفعہ370کو کسی بھی صورت میں کمزور نہیں ہونے دیا جائیگا۔اُنہوں نے بتایا کہ تاجروں کے تحفظات اور خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے17جون کو مکمل ہڑتال کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔
اس دوران بزرگ راہنما سید علی شاہ گیلانی کی قیادت والی علیٰحدگی پسندوں کی مشترکہ قیادت نے ایک بیان میں جی ایس ٹی کے نفاذ کے حوالے سے ریاستی حکومت کے روئیے کو” انتہائی افسوسناک اور قابل تشویش“ قرار دیا ہے اور کہاہے”یہ کشمیریوں کی اقتصادیات کو تباہ وبرباد کرنے کی ایک سازش ہے اور اس کے ذریعے سے یہاں کی تجارت اور کاروبار کو نقصان پہنچانا مقصود ہے“۔بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ مرکزی سرکار کشمیری قوم کو دانے دانے کا محتاج بنانا چاہتی ہے اور وہ ان کی تجارت کو کسی بھی طور خود مختار اور خود کفیل نہیں دیکھنا چاہتی ہے۔ریاستی وزیرِ خزانہ حسیب درابو کا نام لئے بغیر بیان میں کہا گیا ہے” اس حوالے سے بعض ریاستی وزراءکو ناگپور والوں نے خاص طور سے اپنا آلہ¿ کار اور ہمنوا بنالیا ہے اور وہ انہیں سبز باغ دکھا کر جی ایس ٹی ریاست میں نافذ کرانے میں استعمال کررہے ہیں۔ بھارتی پالیسی سازوں کو کشمیریوں کی ترقی اور خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے اور وہ ہر سطح پر ان کے خلاف سازشیں رچارہے ہیں“۔