سرینگر// جموں کشمیر میں نئے ٹیکس قانون گُڈس اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) کے نفاذ کو لیکر وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کی طرفسے بلائی جاچکی کُل جماعتی میٹنگ اس معاملے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس دوران میٹنگ میں وزیرِ خزانہ حسیب درابو اور سابق وزیرِ خزانہ مظفر بیگ کی جانب سے اس قانون کے نفاذ میں سرکار کی مقاصد کی وضاحت کے دوران تضاد سامنے آنے کے بعد یہ معاملہ پیچیدہ بن گیا ہے جبکہ شُرکاءِ اجلاس نے جی ایس ٹی پر بحث کے لئے 17 جون سے طے اسمبلی اجلاس کو موخر کردئے جانے کا مشورہ دیا ہے۔
بھارت میں یکم جولائی سے جی ایس ٹی کا قانون نافذ ہونے جارہا ہے اور ریاستی سرکار بھی جموں کشمیر میں یہ قانون نافذ کرنے کی کوشش میں ہے جبکہ حزِ اختلاف نے ایسے میں ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت پر حرف آنے کے خدشات کے پیشِ نظر اسکی مخالفت کی ہے۔ حالانکہ سرکار نے اس حوالے سے اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کیا ہوا ہے تاہم اس سے قبل معاملے پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لئے کل ایس کے آئی سی سی میں کُل جماعتی اجلاس بُلایا گیا تھا۔
حزبِ اختلاف کے سبھی ممبران اس بات پر متفق تھے کہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے ریاست کی مالی خود مختاری اور اٹانومی کے دیگر شعبوں پر اثر نہیں پڑھنا چاہیئے اور اس حوالے سے کوئی سمجھوتہ قابلِ قبول نہیں ہو سکتا ہے۔
اس موقعہ پروزیراعلیٰ نے کہاکہ کل جماعتی میٹنگ منعقد کرانے کا بنیادی مقصد ریاست میں یہ ٹیکس نظام رائج کرانے کے حوالے سے وسیع اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ریاست میں جی ایس ٹی نظام کی عمل آوری صرف حکومت کا ہی فیصلہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں سماج کے ہر ایک طبقے کا مجموعی فیصلہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔وزیر اعلیٰ نے امُید ظاہر کی کہ اس موضوع پر اسمبلی کے آنے والے خصوصی اجلاس کے دوران سیر حاصل بحث ہوگی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ تمام طبقوں بشمول سیاسی حلقوں اور تاجر برادری کی تجاویز سننے کے لئے تیار ہیں۔انہوںنے اُمید ظاہر کی کہ شرکاء مجوزہ قوانین کے مدوں پر تفصیل سے تبادلہ خیال کرکے اپنی جامع تجاویز اور سفارشار ت پیش کریںگے جن کی رو سے ریا ست کی مالی اور سیاسی خود مختاری بھی متاثر نہ ہو۔ حالانکہ اجلاس میں جی ایس ٹی پر اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہو سکا۔
ذرائع کے مطابق حزبِ اختلاف کے سبھی ممبران اس بات پر متفق تھے کہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے ریاست کی مالی خود مختاری اور اٹانومی کے دیگر شعبوں پر اثر نہیں پڑھنا چاہیئے اور اس حوالے سے کوئی سمجھوتہ قابلِ قبول نہیں ہو سکتا ہے۔ اجلاس کے بعد نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر ناصر اسلم وانی نے کہا کہ سرکار نے اجلاس تو بُلایا تھا تاہم اسکے پاس کوئی روڑ میپ وغیرہ نہیں تھا بلکہ سرکار کسی تیاری کے بغیر ہی اجلاس میں آئی تھی۔
’’ اگرہماری ریاست اس میں شامل نہیں ہوتی ہے تو ہم الگ تھلگ پڑ جائیں گے اور ہمارے لئے اقتصادیات کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے جبکہ ہمارے متعلق منفی رائے بھی قائم کی جائے گی۔‘‘
حالانکہ وزیرِ خزانہ حسیب درابو نے جی ایس ٹی کے مختلف پہلوئوں اور فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جی ایس ٹی سے دور رہنا حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔اُنہوں نے کہا’’ریاستی قانون سازیہ جامع جی ایس ٹی قانون کو لاگو کرسکتی ہے جس کے تحت ایس جی ایس ٹی اور سی جی ایس ٹی کے مطابق ٹیکس کی شرحیں عائد کی جائیں گی“۔اُنہوں نے کہا’’ریاست میں آئینی ترمیم 101 ،جوکہ جموں وکشمیر میں پہلے ہی لاگو ہے کے ذریعے ہی جی ایس ٹی لاگو کیا جائے گا اور اس سلسلے میں ریاست کی خصوصی حیثیت اور مالی خود مختاری کا خیال رکھا جائے گا۔‘‘۔ حسیب درابو نے کہا’’ اگرہماری ریاست اس میں شامل نہیں ہوتی ہے تو ہم الگ تھلگ پڑ جائیں گے اور ہمارے لئے اقتصادیات کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے جبکہ ہمارے متعلق منفی رائے بھی قائم کی جائے گی۔‘‘اُنہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کو ریاستی آئین کی دفعہ 5کے تحت ٹیکس کے اختیارات حاص ہے لہٰذا ریاست کی مالی خود مختاری پر سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نیشنل کانفرنس کی طرفسے سابق وزیر خزانہ عبدالرحیم راتھر اور دیگر اپوزیشن لیڈران نے ریاستی وزیرِ خزانہ حسیب درابو کی اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ جی ایس ٹی لاگو ہونے سے جموں کشمیر کے کاروباری طبقہ کو کافی فائدہ پہنچے گا ۔ اُنہوں نے کہا کہ جموں کشمیر بالخصوص وادی کے کاروباری طبقے کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے بلکہ اُلٹا انہیں جی ایس ٹی کے تحت اضافی ٹیکس ادا کرنا پڑے گا ۔ نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر ناصر اسلم وانی نے کہا کہ ریاستی سرکار نے آئین ہند کی101ویں ترمیم کو لاگو کرنے کیلئے کوئی بھی ہوم ورک نہیں کیا ہے اور برق رفتاری میں مخلوط سرکار جی ایس ٹی کو جموں کشمیر میں لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا ’’اسمبلی میں پیش کرنے کیلئے حکومت نے ابھی جی ایس ٹی کی ترمیم کے حوالے سے مسودہ بھی تیار نہیں کیا ہے،اور نہ ہی اس کو دیگر جماعتوں کو دکھایا گیا ہے،جس کی وجہ سے خدشات میں اور اضافہ ہو رہا ہے‘‘۔اُنہوں نے کہا کہ جب تک مرکزی حکومت کی طرف سے مالی اور سیاسی خودمختاری کی ضمانت نہیں ہوتی،تب تک یہ خدشات جاری رہیں گے۔
پی ڈی پی کے سنیئر لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ مظفر حسین بیگ نے کہا ’’ہم ریاستی اسمبلی میں ایک بل منظور کرکے اپنے یہاں در آمد ہونے والی چیزوں پر معمولی ٹیکس لاگو کر سکتے ہیں“ ۔ اُنہوں نے مزید کہا ’’اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ایک طرف جی ایس ٹی کے فائدے ریاست ، یہاں کے کاروباری طبقے اور عام آدمی کو حاصل ہونگے اور دوسری جانب ہم اپنی خصوصی پوزیشن کا تحفظ بھی یقینی بنا پائیں گے“ ۔
’’اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ایک طرف جی ایس ٹی کے فائدے ریاست ، یہاں کے کاروباری طبقے اور عام آدمی کو حاصل ہونگے اور دوسری جانب ہم اپنی خصوصی پوزیشن کا تحفظ بھی یقینی بنا پائیں گے“ ۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں نائب وزیر اعلیٰ نرمل سنگھ ، وزیر خزانہ حسیب درابو،سینئر وزراء عبدالرحمان ویری ، عبدالحق خان اور سجاد غنی لون کے علاو پی ڈی پی ممبر پارلیمنٹ مظفر حسین بیگ ، پارٹی کے نائبِ صدر سرتاج مدنی اور جنرل سیکریٹری نظام الدین بٹ بھی موجود تھے ۔ نیشنل کانفرنس سے وابستہ سابق وزراء خزانہ عبدالرحیم راتھر ، محمد شفیع اوڑی ، صوبائی صدر جموں دویندر سنگھ رانا ، صوبائی صدر کشمیر ناصر اسلم وانی کے علاوہ کانگریس سے وابستہ سابق وزیر نوانگ ریگزن جورا ، عثمان مجید ، غلام نبی مونگا ، حکیم محمد یاسین ، محمد یوسف تاریگامی ، عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید، بی جے پی کے ریاستی صدر ست شرما،صحت و تعلیم کے وزیر بالی بھگت ، نیشنل پنتھرس پارٹی کے ہرش دیو سنگھ اور ایم ایل اے ادھمپور پون گپتا نے بھی میٹنگ میں شریک ہوئے ۔ کانفرنس میں چیف سیکرٹری بی بی ویاس ، وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری روہت کنسل ، کمشنر سیکرٹری فائنانس نوین چودھری ، سیکرٹری قانون عبدالمجید بٹ ، کمشنر کمرشل ٹیکسز خطیب احمد اور کئی دیگر اعلیٰ افسران بھی اس موقعہ موجو دتھے۔
اجلاس کے بعد شُرکاء کو وزیرِ اعلیٰ کی جانب سے اعلیٰ دعوت کھلائی گئی اور دونوں جانب کی پارٹیوں کے لیڈر گپیں لڑاتے ہوئے وازہ وان کا مزہ لیتے رہے۔