سرینگر// 2010 کے عوامی تحریک کا موجب بنے کمسن طفیل متو کی ساتویں برسی کے موقعہ پر کل اُنکے والد محمد اشرف نے انصاف کی لڑائی جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہوئے کہا کہ وہ تھکے بغیر چلتے رہیں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ طفیل کے قتل کا معاملہ واضح ہونے کے باوجود بھی اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے اور وردی پوش قاتل آزاد گھوم رہے ہیں لیکن اُنہوں نے بھی آخری دم تک جدوجہد جاری رکھنے کا فیصبہ لیا ہوا ہے۔
یوں مارا ماری کے اس سلسلے میں سرکاری فورسز نے سوا سو لوگوں کی جان لی تھی اور وادی کشمیر مہینوں حوالہ آتش رہی تھی۔
طفیل متو نامی کمسن کو 11جون2010 کو غنی میموریل اسٹیڈیم راجوری کدل کے قریب اُسوقت ٹیئر گیس کا شیل مار کر قتل کر دیا گیا تھا کہ جب وہ ٹیوشن سے لوٹ رہے تھے ۔ اس واقعہ کے خلاف وادی میں زبردست احتجاج ہوا تھا اور سرکاری فورسز نے طاقت کا استعمال کرکے مزید نوجوانوں کو جاں بحق کردیا تھا جنکے مارے جانے کے خلاف ہوئے احتجاج کو روکنے کے لئے مزید نوجوانوں اور بچوں کو مار گرایا گیا تھا اور یوں مارا ماری کے اس سلسلے میں سرکاری فورسز نے سوا سو لوگوں کی جان لی تھی اور وادی کشمیر مہینوں حوالہ آتش رہی تھی۔
ان سوگوار والدین کا کہنا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے یہاں آکر اپنا غم ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُنہیں لگتا ہے کہ وہ ایکدوسرے کے ساتھ ایک عجیب مگر مظبوط رشتے میں بندھ چکے ہیں۔
طفیل متو کے والد محمد اشرف تب ہی سے اپنے بچے کے لئے انصاف کی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں سب کچھ اُنکے حق میں ہونے کے باوجود بھی صبر آزما طوالت کا اُنہیں سامنا ہے۔متو خاندان لگاتار سات سال سے طفیل کی برسی کے موقعہ پر تقریب کا انعقاد کرتے اور اس موقعہ پر جدوجہد جاری رکھنے کا عہد کرتے آیا ہے۔ چناچہ کل بھی غم زدہ خاندان کی سعیدہ کدل میں واقع رہائش گاہ پر اُنکے اقرباء کا تانتا بندھا ہوا تھا اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ وامق فاروق ( رعناواری) ،عمر قیوم ( صورہ)،زاہد فاروق (نشاط) اور ان دیگر نوجوانوں یا بچوں کے والدین بھی یہاں موجود تھے کہ جنہیں اُس عوامی تحریک کے دوران جاں بحق کیا گیا تھا۔ ان سوگوار والدین کا کہنا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے یہاں آکر اپنا غم ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اُنہیں لگتا ہے کہ وہ ایکدوسرے کے ساتھ ایک عجیب مگر مظبوط رشتے میں بندھ چکے ہیں۔
اس دوران مزارِ شہدائ میں فاتحہ خواتی کی ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں متو خاندان اور اُنکے مذکورہ بالا شُرکاءِ غم کے علاوہ مزاحمتی خیمے کے کئی سرکردہ کارکنوں نے شرکت کی۔ اس موقعہ پر اُن سبھی ہزاروں لوگوں کے ایصالِ ثواب کے لئے دُعا کی گئی کہ جو قریب تیس سال کے دوران سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ تقریب پر موجود لوگوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ سات سال گذر جانے کے باوجود بھی طفیل متو اور اُن دیگر لوگوں کے گناہگاروں کو چھُوا تک نہیں گیا ہے کہ جنہیں بے دردی کے ساتھ جُرمِ ضعیفی میں قتل کیا گیا تھا۔
” یہ صرف میرے لخت جگر کی شہادت کا معاملہ نہیں بلکہ گزشتہ چند برسوں میں مارے گئے 200 سے زیادہ معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دئے جانے کا معاملہ ہے۔ وردی پوش قاتلوں نے ان معصوموں کے اہلِ خانہ کو تا عمر کیلئے درد دیا ہے ، ان قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کیلئے قانونی جنگ جاری رکھی جائیگی “۔
طفیل متو کے والد محمد اشرف نے اس موقعہ پر مختصراََ اُن مشکلات اور مایوسیوں کا تذکرہ کیا کہ جو اُنہیں اپنے بچے کے مقدمے کو لڑتے ہوئے درپیش آتی رہی ہیں ۔ اُنہوں نے تاہم اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ حصولِ انصاف تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اُنہوں نے کہا ” یہ صرف میرے لخت جگر کی شہادت کا معاملہ نہیں بلکہ گزشتہ چند برسوں میں مارے گئے 200 سے زیادہ معصوم بچوں کو موت کی نیند سلا دئے جانے کا معاملہ ہے۔ وردی پوش قاتلوں نے ان معصوموں کے اہلِ خانہ کو تا عمر کیلئے درد دیا ہے ، ان قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کیلئے قانونی جنگ جاری رکھی جائیگی “۔ اُنہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں ہر سو خون گرا ہے اور بے شمار لوگوں نے قربانیاں دی ہیں لہٰذا اس وادی کو ”
وادی شہداء کہا جاسکتا ہے“۔