سرینگر// گزشتہ سات سال کے دوران سرینگر کی مرکزی جامع مسجد کو کل پہلی بار ماہِ رمضان کے دوران جمعہ کو بند کردیا گیا اور یہاں نمازجمعہ کی اجازت نہیں دی گئی۔سرکاری انتظامیہ کا یہ اقدام بالپورہ شوپیاں کے نوجوان طالبِ علم عادل فاروق ماگرے کے مارے جانے کے خلاف مزاحمتی قیادت کی دی ہوئی احتجاجی کال کے پیش نظر کیا گیا تھا۔مزاحمتی قیادت نے جمعہ کے لئے کشمیر بند کی کال دینے کے ساتھ ساتھ نمازِ جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہرے کرنے کی اپیل کی ہوئی تھی۔وادی میں مکمل ہڑتال رہی اور کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تاہم سرینگر کی تاریخی جامع مسجد محصور رہی۔
مزاحمتی قیادت کی کال کے پیشِ نظر سرکاری انتظامیہ نے پائین سرینگر کے مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا تھا اور اسکے علاوہ لوگوں کی نقل و حمل روکنے کے لئے سڑکوں پر جگہ جگہ تار بچھائی گئی تھی اور دیگر اقسام کی رکاوٹیں کھڑا کردی گئی تھیں۔پائین شہر میں ذرائع نے بتایا کہ جامع مسجد کو جانے والے سبھی راستوں پر صبح سویرے سے ہی رکاوٹیں کھڑا کی گئی تھیں اور جامع کے سبھی پھاٹک تالہ بند کردئے گئے تھے جبکہ یہاں سرکاری فورسز کی بھاری نفری تعینات تھی۔
سلطان سکندر کے ذرئعہ پندرہویں صدی میں بنوائی جا چکی،شہر کے نوہٹہ علاقہ میں واقع، جامع مسجد کا کشمیر کی تحریک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور جب جب یہاں بغاوت ہوئی ہے جامع مسجد کسی نہ کسی شکل میں اسکا حصہ مانی جاتی رہی ہے اور پھر اسے بھی عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔
گو سرینگر میں چھوٹی بڑی مساجد کا جال پھیلا ہوا ہے اور قدم قدم پر ایک سے ایک مساجد آباد ہیں تاہم مرکزی جامع مسجد کے ساتھ لوگوں کی والہانہ عقیدت ہے اور یہی وجہ ہے کہ متبرک ایام کے دوران اکثر لوگ یہاں پہنچ کر ایک بڑے اجتماع کا حصہ بننے کی سعادت پانے کے خواہشمند رہتے ہیں۔جیسا کہ بژھ پورہ سے آئے ہوئے علی محمد نے ایک نامہ نگار کو بتایا”میں یہاں نماز پڑھنے کے لئے آیا تھا،مجھے معلوم تھا کہ کچھ بندشیں لگائی گئی ہیں لیکن رمضان کے دوران جامع کو بند کردیا جائے گا ایسا میں نے سوچا بھی نہیں تھااگرچہ 2010کی تحریک میں ایسا کئی بار ہوا تھا“۔
جامع کی مہتمم اوقاف کمیٹی کا کہنا ہے کہ اگرچہ مسجد میں عام حالات میں بھی لوگوں کا بڑا رش رہتا ہے لیکن رمضان کے دوران نمازیوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور اسی حساب سے یہاں پیشگی انتظاماتبھی کئے جاتے ہیں۔کمیٹی کے ایک ممبر محمد رمضان کے مطابق اب کے بھی مسجد میں لوگوں کی بڑی تعداد متوقع تھی لہٰذا ایک دن پہلے کمیٹی نے میٹنگ کرکے انتظامات کو حتمی شکل دی تھی اور صفائی ستھرائی کے انتظام کے علاوہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو سکون سے نماز ادا کرنے کا موقعہ دینے کے لئے خیمے لگانے اور اس طرح کے دیگر فیصؒے لئے گئے تھے تاہم سرکار نے مسجد کو ہی مقفل کردیا۔
حزب کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے پر گذشتہ سال اس مسجد کو قریب چار ماہ تک بند کردیا گیا اور یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی تاہم گذشتہ سات سال میں یہ پہلی بار ہے کہ جب جامع کو رمضان کے متبرک مہینے میں بند کرکے یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔
سلطان سکندر کے ذرئعہ پندرہویں صدی میں بنوائی جا چکی،شہر کے نوہٹہ علاقہ میں واقع، جامع مسجد کا کشمیر کی تحریک کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور جب جب یہاں بغاوت ہوئی ہے جامع مسجد کسی نہ کسی شکل میں اسکا حصہ مانی جاتی رہی ہے اور پھر اسے بھی عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔چناچہ سکھوں اور ڈوگرہ شاہی کے دور میں یہ مسجد لگاتار برسوں بند رہتی آئی ہے جبکہ موجودہ تحریک کے دوران بھی اسے آئے دنوں نمازیوں کے لئے بند کردیا جانا ایک ممول سا بن گیا ہے۔ قریب تیس سال پہلے جموں کشمیر میں مسلح تحریک شروع ہونے کے بعد سے یہ مسجد بھارت مخالف احتجاجی مظاہروں کا مرکز بن کے اُبھری ہے اور ہر جمعہ کو نماز کے بعد ہزاروں لوگ جلوس نکالنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں جنہیں روکے جانے کے بعد نوجوانوں اور سرکاری فورسز کے مابین جھڑپیں یہاں ہر جمعہ کا معمول ہو گئی ہیں۔
حزب کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے پر گذشتہ سال اس مسجد کو قریب چار ماہ تک بند کردیا گیا اور یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی تاہم گذشتہ سات سال میں یہ پہلی بار ہے کہ جب جامع کو رمضان کے متبرک مہینے میں بند کرکے یہاں نماز کی اجازت نہیں دی گئی۔