سرینگر// فوج کی جانب سے چلائے جارہے ”گُڈوِل“اسکولوں کے سلسلہ کے ایک اسکول کے طلباءکی جانب سے بورڈ پر آزادی کا نعرہ لکھنے کے بعدیہاں کی نویں جمات کو ایک ماہ تک کے لئے بند کرکے والدین کو طلباءکی فہمائش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے جبکہ ایک اُستاد کی جانب سے حزب کمانڈر سبزار بٹ کو شہید کہلانے کی وجہ سے اُنہیں نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے۔مذکورہ اُستاد کے چالیس ساتھی اساتذہ تاہم نوکری سے احتجاجاََ مستعفی ہوگئے ہیں۔
انگریزی روزنامہ کشمیر ریڈر نے آرمی گُڈوِل اسکول شریف آباد کے کئی اساتذہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حزب کمانڈر سبزار بٹ کے 27مئی کو ایک اینکاونٹر میں مارے جانے کے دو دن بعد یہاں کی نویں جماعت کے بچوں نے بورڈ پر آزادی کا نعرہ لکھا تھا جس کا علم ہونے پر اسکول کی فوجی انتظامیہ نے اساتذہ اور طلباءکو پوچھ تاچھ کے لئے طلب کرلیا۔معلوم ہوا ہے کہ یہ پوچھ تاچھ پرنسپل، وائس پرنسپل اورفوج کے ایک افسر کرنل دویندرا کے سامنے ہوئی۔اس دوران مدثر عبداللہ نامی ایک اُستاد نے سبزار بٹ کو شہید کہکر پکارا جس سے مشتعل ہوکر فوجی افسر نے اُنہیں موقعہ پر ہی برخواست کرتے ہوئے اُنہیں دھکے دیکر باہر پھینک دینے کا حکم دیا۔اس واقعہ کے گواہ ایک اُستاد نے کہا ہے”دھکے دیکر نکالا گیا اُسکو“۔اس دوران آزادی کا نعرہ لکھنے والے کچھ طلباءکی شناخت ہوئی ۔مذکورہ اُستاد کا کہنا ہے کہ اگرچہ اُنہیں ابھی تک اُنکی بر خواستگی کا باضابطہ حکم نامہ موصول نہیں ہوا ہے لیکن اُنہیں نکال دیا جاچکا ہے۔
یہاں کی نویں جماعت کے بچوں نے بورڈ پر آزادی کا نعرہ لکھا تھا جس کا علم ہونے پر اسکول کی فوجی انتظامیہ نے اساتذہ اور طلباءکو پوچھ تاچھ کے لئے طلب کرلیا۔معلوم ہوا ہے کہ یہ پوچھ تاچھ پرنسپل، وائس پرنسپل اورفوج کے ایک افسر کرنل دویندرا کے سامنے ہوئی۔اس دوران مدثر عبداللہ نامی ایک اُستاد نے سبزار بٹ کو شہید کہکر پکارا جس سے مشتعل ہوکر فوجی افسر نے اُنہیں موقعہ پر ہی برخواست کرتے ہوئے اُنہیں دھکے دیکر باہر پھینک دینے کا حکم دیا۔
اسکول کی پرنسپل شائستہ خان کا کہنا ہے”اسکول میںاس طرح کے مزید واقعات کو روکنے کے لئے ہم نے والدین کو انفرادی اور اجتماعی طور بلایا اور اُنہیں اپنے بچوں کی گھر میں تربیت کرنے اور اُنہیں سمجھانے بجھانے کے لئے کہا۔ہم نے نویں جماعت کو چار ہفتوں کے لئے بند کردیا ہے“۔اُنہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نویں جماعت کے درس و تدریس کا کام اس وجہ سے بند کردیا گیا ہے تاکہ والدین کو اپنے بچوں کو سمجھانے کا موقعہ ملے اور اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہ آنے پائیں۔تاہم پرنسپل نے انکشاف کیا ہے کہ والدین اس اقدام سے خوش نہیں ہیں اور وہ بچوں کو اس اسکول سے واپس نکالنا چاہتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ اسکول میں مارننگ اسمبلی پر ”جئے ہند“کے نعرے لگائے جانے پر بھی تنازعہ تھا کہ بچے اس پر آمادہ نہیں تھے اور اُنہوں نے شرط رکھی تھی کہ وہ اگر ایسا پکاریں بھی تو فقط اس شرط پر کہ جب سبھی اساتذہ بھی یہ نعرے لگائیں۔ذرائع کے مطابق فوج کے زیرِ اہتمام چل رہے ان اسکولوں میں اس سے قبل بھی اس طرح کے کئی چھوٹے بڑے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ چناچہ جنوبی کشمیر میں ایسے ہی ایک اسکول کے اُستاد کا کہنا ہے کہ ایک بار جب وہ بچوں کو سیر کے لئے پونا لے جارہے تھے تو ایک جگہ صورتحال کو سنبھالنا بہت مشکل ہوگیا تھا کہ جب گُڈوِل اسکول کے بچوں نے چلتی ٹرین میں ”ہم کیا چاہتے آزادی“اور اس طرح کے نعروں سے آسمان سر پر اُٹھالیا تھا۔اُنہوں نے کہا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہے تھے کہ بچوں نے اپنے اسمارٹ فونز میں وادی میں ہورہے تشدد کی تصاویر رکھی تھیں اور وہ ٹرین میں ساتھی مسافروں کو یہ تصاویر دکھا دکھا کر یہاں کے حالات بتارہے تھے اور پھر جذباتی ہوکر اُنہوں نے نعرہ بازی شروع کی۔
ہم نے نویں جماعت کو چار ہفتوں کے لئے بند کردیا ہے“۔اُنہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نویں جماعت کے درس و تدریس کا کام اس وجہ سے بند کردیا گیا ہے تاکہ والدین کو اپنے بچوں کو سمجھانے کا موقعہ ملے اور اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہ آنے پائیں۔
واضح رہے کہ فوج آپریشن سدبھاونا کے تحت ریاست میں ”گُڈوِل اسکول“ کا ایک سلسلہ چلا رہی ہے اور یہ اسکول فوج کے مختلف بڑے کیمپوں کے قریب قائم ہیں۔سید علی شاہ گیلانی نے حال ہی ان اسکولوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان پر بچوں کی خاص سمت میں ذہن سازی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے والدین سے اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھرتی نہ کرنے اور پہلے سے بھرتی بچوں کو واپس لے آںے کے لئے کہا تھا۔(اشفاق ریشی کی رپورٹ کے مشمولات کے ساتھ)