عادل نےصبح کوہی شہیدہونے کی پیشگوئی کی تھی

(راشد حسن)

گناوپورہ شوپیاں// شوپیاں کے گناوپورہ میں منگل کو سرکاری فورسز کی گولی کا شکار ہوکر جاں بحق ہوچکے نوجوان طالب علم عادل فاروق ماگرے کو بدھ کو ہزاروں لوگوں نے نم آنکھوں اور گرم جذبات کے ساتھ وداع کرکے دفن کردیا۔ شوپیاں کے ضلع ہیڈکوارٹر سے چھ کلومیٹر اور علاقے میں فوج کے سب سے بڑے کیمپ واقع بالپورہ سے ایک کلومیٹر دور عادل کے آبائی گاوں میں ہزاروں لوگ جمع تھے ۔ اُنکی پے در پے کم از کم دو بار نمازِ جنازہ پڑھی اور دونوں مرتبہ اس میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے جو انتہائی غم و غصہ کا اظہار کر رہے تھے۔

احتجاجی مظاہروں، آزادی اور اسلام کے حق میں اور بھارت مخالف نعروں کی گونج میں عادل کو آبائی قبرستان کی قبر میں اُتارا جانے لگا تو نوجوانوں کے جذبات زبردست گرم ہوگئے اور وہ اور جوش کے ساتھ نعرہ بازی کرنے لگے جبکہ اُنکے کئی دوستوں کو ایک دوسرے کے کاندھوں پر سر رکھے روتے دیکھا جا سکتا تھا۔

”کل سحری کے وقت اُس نے مجھ سے کہا پاپا، آج میں شہید ہوجاوں گا، میں نے اُسکی بات کو سرسری لیکر نظر انداز کردیا لیکن کہاں جانتا تھا کہ وہ واقعی شہادت پائے گا“۔

عادل فاروق کو منگل کی شام اُسوقت مار ڈالا گیا تھا کہ جب فوج اور دیگر سرکاری فورسز نے گاوں کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی تھی اور لوگوں نے مزاحمت کی۔ عینی شاہدین کے مطابق سرکاری فورسز نے منگل کی شام سات بجے کے قریب شوپیاں کے گناوپورہ گاوں کا محاصرہ کرنا شروع کیا تو اس گاوں کے علاوہ اآس پڑوس کے کئی دیہات کے لوگ جمع ہوکر مزاحمت کرنے لگے۔ معلوم ہوا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد گھروں سے باہر آکر احتجاجی مظاہرے کرنے لگی اور پھر سرکاری فورسز کی جانب سے طاقت کا استعمال کئے جانے کے ردِ عمل میں ان پر پتھر پھینکنا شروع کیا۔ان ذرائع کے مطابق سرکاری فورسز نے شدید فائرنگ کی جسکی وجہ سے کئی افراد زخمی ہوئے جن میں عادل فاروق ماگرے ساکن بال پورہ بھی شامل تھے جنہیں بعدازاں اسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہیں ہوسکے۔ ضلع اسپتال شوپیاں کے میڈیکل سپرانٹنڈنٹ ڈاکٹر نذیر احمد نے بتایا کہ عادل اسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ بیٹھے تھے اور یہ کہ اُنہیں دِل کے قریب گولی لگی تھی۔

”باقی سبھی کشمیریوں کی طرح وہ بھی آزادی کے لئے بہت جذباتی تھا ،کئی بار بندوق اُٹھانے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن میں نے کسی طرح ایسا کرنے سے روکا ہوا تھا“۔

سیب کے کاشتکار فاروق احمد ماگرے کے چھ بیٹوں میں سے سب سے بڑے عادل فاروق ڈگری کالج شوپیاں میں بی ایس سی کے طالبِ علم تھے۔ غم سے نڈھال فاروق احمد کا کہنا تھا کہ اُنکے بیٹے اُسوقت روزے سے تھے کہ جب اُنہیں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اُنہوں نے کہا کہ عادل کے منگل کی شام کو زخمی ہونے سے لیکر بدھ کی صبح تک اُنہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ عادل شہید ہوچکے ہیں بلکہ اُنہیں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ زخمی ہیں اور سرینگر کے کسی اسپتال میں زیرِ علاج۔ اُنہوں نے کہا کہ حزب کمانڈر بُرہان وانی کے گذشتہ سال مارے جانے کے بعد عادل کو ایک بار فوج نے احتجاجی مظاہروں میں شامل ہونے کی وجہ سے اُٹھایا تھا اور اُنکی انتہائی شدید مارپیٹ کی گئی تھی جسکے بعد اُنکے سر میں درد رہنے لگا تھا اور وہ صدر اسپتال سرینگر کے زیرِ علاج تھے۔

فاروق احمد نے کہا کہ فوج کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے بعد عادل نے بندوق اُٹھانے کا من بنایا تھا تاہم اُنہوں نے اُنہیں سمجھا بجھا کر ایسا کرنے سے روکا تھا ۔ اُنکا کہنا ہے ”باقی سبھی کشمیریوں کی طرح وہ بھی آزادی کے لئے بہت جذباتی تھا ،کئی بار بندوق اُٹھانے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن میں نے کسی طرح ایسا کرنے سے روکا ہوا تھا“۔ اُنہوں نے ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ عادل نے منگل کے روز سحری کھاتے ہوئے اسی دن شہید ہوجانے کی پیش گوئی کی تھی۔ اُنکا کہنا ہے ”کل سحری کے وقت اُس نے مجھ سے کہا پاپا، آج میں شہید ہوجاوں گا، میں نے اُسکی بات کو سرسری لیکر نظر انداز کردیا لیکن کہاں جانتا تھا کہ وہ واقعہ شہادت پائے گا“۔

ماگرے کے چار کمروں پر مشتمل یک منزلہ مکان کے صحن میں اس سے قبل مارے جاچکے معروف جنگجو کمانڈروں کے قد آمد پوسٹر آویزاں کئے گئے تھے۔اس دوران ماگرے خاندان کے یہاں پُرسہ دینے کو آتے رہے اکثر لوگ فاروق احمد کو یہ کہتے ہوئے ”مبارکباد“ دیتے جارہے تھے کہ اُنکے بیٹے نے مقدس رمضان کے مہینے میں شہادت پائی ہے اور وہ پورے گھرانے کی جنت نشینی کا سبب بننے والا ہے۔ عادل کے رشتہ داروں اور باقی گاوں والوں کے مطابق عادل ایک شریف النفس، ملنسار،بڑوں کے تابعدار اور خوش گفتار نوجوان تھے کہ جنہیں اُنکے سبھی شناسا ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ (کشمیر ریڈر کے شکریہ کے ساتھ)

 یہ بھی پڑھئیں

https://tafseelat.com/interviews/8761/

Exit mobile version