شوپیاں میں سرکاری فورسزنے نوجوان کو مار ڈالا

شوپیان// جنوبی کشمیر کے شوپیاں علاقہ میں سرکاری فورسز نے ایک گاوں کا محاصرہ کرنے کے دوران گولی چلا کر 22 سال کے ایک نوجوان کو گولی مار کر جاں بحق کردیا ہے جبکہ علاقے میں کئی دیگر افراد زخمی بتائے جاتے ہیں کہ جو گاوں کا محاصرہ کئے جانے کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ علاقے میں جنگجووں کی موجودگی کے خدشہ کے پیشِ نظر فورسز نے یہاں کا محاصرہ جاری رکھا ہوا ہے اور حالات کشیدہ بتائے جاتے ہیں۔

لوگوں کی ایک بڑی تعداد گھروں سے باہر آکر احتجاجی مظاہرے کرنے لگی اور پھر سرکاری فورسز کی جانب سے طاقت کا استعمال کئے جانے کے ردِ عمل میں ان پر پتھر پھینکنا شروع کیا۔

ذرائع کے مطابق سرکاری فورسز نے منگل کی شام سات بجے کے قریب شوپیاں کے گناوپورہ گاوں کا محاصرہ کرنا شروع کیا تو اس گاوں کے علاوہ اآس پڑوس کے کئی دیہات کے لوگ جمع ہوکر مزاحمت کرنے لگے۔ معلوم ہوا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد گھروں سے باہر آکر احتجاجی مظاہرے کرنے لگی اور پھر سرکاری فورسز کی جانب سے طاقت کا استعمال کئے جانے کے ردِ عمل میں ان پر پتھر پھینکنا شروع کیا۔ان ذرائع کے مطابق سرکاری فورسز نے شدید فائرنگ کی جسکی وجہ سے کئی افراد زخمی ہوئے جن میں عادل فاروق ماگرے ساکن بال پورہ بھی شامل تھے جنہیں بعدازاں اسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہیں ہوسکے۔ ضلع اسپتال شوپیاں کے میڈیکل سپرانٹنڈنٹ ڈاکٹر نذیر احمد نے بتایا کہ عادل اسپتال پہنچنے سے قبل ہی دم توڑ بیٹھے تھے اور یہ کہ اُنہیں دِل کے قریب گولی لگی تھی۔

عادل کی لاش جلد ہی اُنکے ورثاء کے حوالے کردی گئی تاہم اسکے گاوں پہنچائے جانے پر یہاں کہرام مچ گیا اور ہزاروں لوگ عادل کی تدفین کے لئے جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ حالانکہ علاقے میں شدید برسات ہونے کے باوجود بھی لوگ جمع ہورہے تھے اور احتجاجی مظاہرے کررہے تھے۔ مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ سرکاری فورسز نے قتل کے ارادے سے براہِ راست گولیاں چلائیں اور لوگوں کا احتجاج شروع ہونے کے ساتھ ہی عادل کو نشانہ بناکر مار ڈالا گیا۔ یہاں کئی لوگ جذباتی انداز میں بین کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ عادل نے دُنیا میں سحری کھائی ہے اور وہ جنت میں روزہ کھولیں گے۔

مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ سرکاری فورسز نے قتل کے ارادے سے براہِ راست گولیاں چلائیں اور لوگوں کا احتجاج شروع ہونے کے ساتھ ہی عادل کو نشانہ بناکر مار ڈالا گیا۔

پولس کا کہنا ہے کہ علاقے میں جنگجووں کی موجودگی کی اطلاع ملی ہوئی تھی اور اسی وجہ سے یہاں کا محاصرہ کیا گیا تھا تاہم لوگوں نے جنگجووں کو راہِ فرار دینے کے لئے پتھراو شروع کیا۔ یاد رہے کہ جنوبی کشمیر میں اب یہ معمول بن گیا ہے کہ سرکاری فورسز جہاں کہیں بھی محاصرہ کرتی ہیں مقامی لوگ جمع ہوکر جنگجووں کی مدد کو آتے ہیں۔ فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کی جانب سے شدید اور راست دھمکی دئے جانے کے باوجود بھی،سرکاری ایجنسیوں کے لئے، اس نئے چلینج کا سدِ باب نہیں کیا جاسکا ہے اور اس طرح کے حالات میں ابھی تک کئی عام شہری مارے جاچکے ہیں۔

دریں اثنا پولس ترجمان کے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ محاصرے اور گھر گھر تلاشی کے آپریشن کے دوران ایک بے قابو ہجوم نے پتھراو شروع کیا اور اس دوران گولیوں کا مختصر تبادلہ بھی ہوا۔ بیان میں علاقے کو ہنوز محصور بتایا گیا ہے۔

Exit mobile version