سرینگر// حزب کمانڈر سبزار بٹ عرف سوبہ ڈان اور اُنکے ساتھی فیضان احمد کے مارے جانے کے چوتھے روز بھی منگل کو وادی میں کشیدگی جاری رہی جبکہ سرکاری انتظامیہ نے علیٰحدگی پسند قیادت کے ”ترال چلو“پروگرام کو ناکام بنانے کے لئے زبردست پابندی عائد کررکھی تھی۔سبزار بٹ کے آبائی گاوں رٹھسونہ میں تاہم آس پڑوس کے ہزاروں لوگ جم ہوگئے تھے جنہوں نے بٹ کے ساتھ والہانہ وابستگی کا اظہار کرنے کے لئے زبردست نعرہ بازی کی۔
اسکے ساتھ ہی پوری وادی میں کشیدگی پھیل گئی تھی۔سنیچر کو اس خبر کے پھیلتے ہی لوگوں نے از خود تعزیتی ہڑتال کی جبکہ اگلے دو دنوں کے لئے حریت کانفرنس نے ہڑتال کی کال دی تھی۔حریت نے منگل کے لئے ”ترال چلو“کی کال دی تھی جسے تاہم انتظامیہ نے ناکام بنادیا۔
جمعہ کی رات کو گھیر لئے جانے کے بعد سبزار بٹ رات بھر جاری رہنے والی ایک شدید جھڑپ کے بعد سنیچر کو اپنے ساتھی فیضان احمد سمیت مارے گئے تھے اور اسکے ساتھ ہی پوری وادی میں کشیدگی پھیل گئی تھی۔سنیچر کو اس خبر کے پھیلتے ہی لوگوں نے از خود تعزیتی ہڑتال کی جبکہ اگلے دو دنوں کے لئے حریت کانفرنس نے ہڑتال کی کال دی تھی۔حریت نے منگل کے لئے ”ترال چلو“کی کال دی تھی جسے تاہم انتظامیہ نے ناکام بنادیا۔چناچہ سرینگر میں کم از کم آٹھ پولس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کردیا گیا تھا جبکہ سرینگر-جموں شاہراہ سمیت ترال جانے کے سبھی راستوں پر اضافی فورسز کو تعینات کردئے جانے کے علاوہ جگہ جگہ ریزو دار تار اور دیگر رکاوٹیں کھڑا کی گئی تھیں۔تاہم ترال کے آس پڑوس کے کئی دیہات کے علاوہ پلوامہ اور شوپیاں کے کئی علاقوں سے کچھ لوگ مختلف گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے سبزار بٹ کے آبائی گاوں رٹھسونہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور یہاں ہزاروں لوگوں کا مجمعہ لگا تھا جس نے گھنٹوں جذباتہ انداز میں نعرہ بازی کی اور یہاں کئی لوگوں نے تقاریر کیں۔
ان علاقوں میں نوجوانوں نے جلوس نکال کر ترال جانے کی کوشش کی تھی تاہم سرکاری فورسز نے انکا راستہ روک لیا جس سے مشتل ہوکر نوجوان سرکاری فورسز کے ساتھ الجھ گئے۔
شوپیاں کے ٹہاب اور پلوامہ کے کئی علاقوں کے علاوہ خود ترال اور شمالی کشمیر میں بانڈی پورہ اور حاجن وغیرہ سے یہاں نوجوانوں کی جانب سے جلوس نکالنے کی کوششوں اور پھر سرکاری فورسز پر سنگبازی کرنے کی خبریں ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں نوجوانوں نے جلوس نکال کر ترال جانے کی کوشش کی تھی تاہم سرکاری فورسز نے انکا راستہ روک لیا جس سے مشتل ہوکر نوجوان سرکاری فورسز کے ساتھ الجھ گئے۔بتایا جاتا ہے کہ ان علاقوں میں دیر گئے تک سنگبازی ہوتی رہی تاہم کسی کے شدید زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ذرائع نے بتایا کہ سبزار بٹ کے مارے جانے کے چوتھے روز بھی پوری وادی میں مکمل ہڑتال رہی جسکی وجہ سے زندگی کا پہیہ جام ہوکے رک گیا تھا۔