کچھ بھی ہو،سرنڈرکرینگے نہ غلامی پرقناعت،گیلانی

سرینگر// وادی کادورہ کر رہے کانگریس لیڈر منی شنکر ائر کی سربراہی والے ایک وفد سے ملاقات کے دوران علیٰحدگی پسندقیادت نے اُن پر واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری عوام امن کے سب سے زیادہ متلاشی ہیں اور مذاکرات پر آمادہ بھی تاہم کسی بھی قسم کی بات چیت کو کامیاب بنانے کے لئے بھارت کو جموں کشمیر کو اپنا ”اٹوٹ انگ“ کہنا بند کرنا ہوگا۔سید گیلانی نے کہا ہے کہ بھارت کشمیریوں کو طرح طرح سے ستاکر تھکا دینے کی کوشش میں ہے تاہم کشمیری کسی بھی حال میں سرنڈر کرنے یا ”بھارت کی غلامی پر قناعت کرنے“پر آمادہ نہیں ہو جائیں گے۔

مولوی عمر نے وفد سے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے بھارت ، پاکستان اور کشمیری عوام کو مل بیٹھ کر ایک قابل قبول حل تلاش کرنا ہوگا

منی شنکر ائر،آئی ڈی کھجوریہ، ونود شرما، او پی شاہ اور کپل کاک پر مشتمل وفد نے مولوی عمر فاروق سے شروع کرکے شبیر شاہ کے یہاں سے ہوتے ہوئے سید علی شاہ گیلانی کے یہاں جاکر اُنسے گھنٹہ بھر کی ملاقات کی اور مسئلہ کشمیر اور اس سے جُڑے معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔سید گیلانی کے ایک ترجمان کے بقول وفد نے کشمیر میں تعلیمی سرگرمیوں کے بلا خلل جاری رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیا جبکہ اسے بتایا گیا کہ یہاں کے بچوں کو سرکاری فورسز کی جانب سے مشتعل کیا جاتا ہے اور یہ کشمیریوں کی نئی نسل کو تعلیم سے دور رکھنے کی ایک بڑی سازش معلوم ہوتی ہے۔

سید گیلانی کے دفتر کی جانب سے اس ملاقات کا ایک مختصر ویڈیو بھی جاری کردیا گیا ہے جس میں سید گیلانی کووفد میں شامل ممبران کے ساتھ بڑے تپاک سے ملتے دیکھا جاسکتا ہے۔شرکائِ وفد کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے سید گیلانی کو اُنہیں بڑے خوشگوار موڈ میں یہ کہتے ہوئے سُنا جاسکتا ہے کہ”آپ تو پوری ایک فوج لیکر آئے ہیں،ویسے بھارت نے فوج کے بل پر ہی جموں کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے“۔اس ملاقات سے متعلق جاری کردہ ایک مفصل بیان میں سید گیلانی کے ایک ترجمان نے کہا کہ ایک گھنٹے کی ملاقات میں شرکاءِ وفد نے ریاست میں امن قائم ہونے اور بچوں کی تعلیم پر کوئی منفی اثر نہ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیااور کہا کہ وہ ریاست کے گورنر کے ساتھ ملاقات کرکے آئے ہیں اور اُنہوں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ہے۔بیان کے مطابق سید گیلانی نے اس کے جواب میں کہا” امن کے سب سے زیادہ خواہشمند اور ضرورتمند کشمیر کے لوگ ہیں، البتہ یہ بھارت کی غلط پالیسی اور فوج اور پولیس کے مظالم ہیں، جو حالات کو درہم برہم کرانے کی بنیادی وجہ ہےں۔ ہم بھی بچوں کی تعلیم کے حق میں ہیں اور نہیں چاہتے کہ ان کے کلاس ورک میں کوئی حرج ہو، البتہ ہمارا سمجھنا ہے کہ یہ ہمارے بچوں کے تعلیمی کیرئیر کو مخدوش بنانے کی ایک منصوبہ بند سازش ہے، انہیں جان بوجھ کر مشتعل کیا جارہا ہے“۔

وفد نے کشمیر میں تعلیمی سرگرمیوں کے بلا خلل جاری رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیا جبکہ اسے بتایا گیا کہ یہاں کے بچوں کو سرکاری فورسز کی جانب سے مشتعل کیا جاتا ہے اور یہ کشمیریوں کی نئی نسل کو تعلیم سے دور رکھنے کی ایک بڑی سازش معلوم ہوتی ہے۔

سید گیلانی نے حزب کمانڈر بُرہان وانی کے مارے جانے کے بعد پیدا شدہ حالات کے لئے بھی سرکاری فورسز کو ذمہ دار بتاتے ہوئے کہا کہ کس طرح پُرامن طور جلوسِ جنازہ میں شرکت کے لئے جارہے لوگوں پر قہر برسا کر حالات کو بگاڈ دیا گیا تھا۔بیان میں درج ہے”کشمیریوں کی طرف سے جو احتجاج وقوع پذیر ہوتا ہے، وہ سرکاری فورسز کی جبروزیادتیوں کا ایک فطری اور قدرتی ردّعمل ہے۔ کشمیری قوم گاو رکھشکوں کے نرغے میں آگئی ہے، جو گائے کے تحفظ کے لیے تو مہم چلاتے ہیں، البتہ کشمیریوں کے قتلِ عام کو وہ ہر صورت میں جائیز اور روا سمجھتے ہیں“۔

منی شنکر ائیر سے مخاطب ہوکر اُنہوں نے کہا” کانگریس نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں ہم پر کچھ کم مظالم نہیں ڈھائے ہیں۔پنڈت جواہر لعل نہرو نے اگرچہ بھارتی پارلیمنٹ اور سرینگر کے لالچوک میں آکر وعدہ کیا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کے تعین کا موقع فراہم کیا جائے گا لیکن بعد میں یہ وعدے پورا نہیں کئے گئے “۔اُنہوں نے مزاحمتی قیادت کے لئے سیاسی جگہ تنگ کردئے جانے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں فوج اور پولیس کا راج قائم ہے، آئین اور قانون عملاً معطل رکھا گیا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ ان حالات میں امن کیسے بحال ہوسکتا ہے کہ جب لیڈروں تک کو آپس میں ملنےاور چار دیواری کے اندربھی میٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ وہ خود پچھلے مسلسل 7سال سے گھر میں قید ہیں یہاں تک کہ اُنہیں کسی پڑوسی کے فوت ہونے کی صورت میں اُنکے گھر جانے تک کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔اُنہوں نے وفد سے کہا”جہاں سیاسی قیادت کے ساتھ اس طرح کا سلوک روا رکھا جارہا ہو، وہاں امن قائم کیسے ہوگا اور حالات کیسے نارمل ہوسکتے ہیں“۔

بھارت اور پاکستان کے مابین موجودہ کشیدگی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیدگیلانی نے کہا کہ ہم جنگ کے روادار نہیں ہیں۔ دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ جنگ ہوئی تو کشمیر ہی نہیں، بلکہ پورا برصغیر زد میں آجائے گا اور عدمِ استحکام اور سیاسی غیر یقینیت میں اضافہ ہوجائے گا۔اُنہوں نے مزید کہا” ہم مذاکرات کے بھی خلاف نہیں ہیں، البتہ جب تک بھارت اٹوٹ انگ کی رٹ ترک کرکے تنازعے کی بنیادی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا، بات چیت سے کوئی نتیجہ نکالنا ممکن نہیں ہے“۔

ان حالات میں امن کیسے بحال ہوسکتا ہے کہ جب لیڈروں تک کو آپس میں ملنےاور چار دیواری کے اندربھی میٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے

مولوی عمر فاروق اور شبیر احمد شاہ نے بھی ریاست کی صورتحال کی تفصیلات بتاتے ہوئے وفد کو بتایا کہ کشمیری نوجوان اور طالب علم بھارت کی پالیسیوں کی وجہ سے تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق سڑکوں کارُخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔مولوی عمر نے وفد سے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے بھارت ، پاکستان اور کشمیری عوام کو مل بیٹھ کر ایک قابل قبول حل تلاش کرنا ہوگا۔شبیر احمد شاہ نے بشری حقوق کی پامالیوں کا ذکر کرتے ہوئے وفد کو بتایاکہ بھارتی لوگوں پر اُنکی تحریک ِآزادی کے دوران شاید برطانیہ نے بھی اتنا ظلم و ستم نہ ڈھایا ہو کہ جسکا کشمیریوں کو سامنا ہے۔شبیر شاہ نے کہا ”ہم بات چیت سے نہیں ڈرتے اور ہمارا ماننا ہے کہ بات چیت ہی مسائل کا حل ہے ،البتہ بات چیت سہ فریقی ہو“۔

Exit mobile version