پلوامہ//جنگجوئیت کا گڈھ بن کر اُبھرے پلوامہ ضلع میں جنگجووں کے ایک شخص کا پُراسرار قتل متنازعہ ہوگیا ہے کہ جہاں پولس اسے جنگجووں کا کام بتاتی ہے وہیں مقتول کے لواحقین اور علاقے کے لوگ اسکے لئے فوج اور دیگر سرکاری فورسز پر الزام لگا رہے ہیں۔اس دوران جلوسِ جنازہ میں ہزاروں لوگوں کے بیچ نمودار ہوکر جنگجووں نے مقتول کو ”گن سیلوٹ“دیکر اُنہیں ”خراجِ عقیدت“پیش کرکے گویا اس قتل میں شامل نہ ہونے کا اعلان کردیا ہے۔پلوامہ میں اس حوالے سے حالات کشیدہ ہیں جبکہ وکلاءتنظیم جموں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس واقعہ کو مشکوک بتاتے ہوئے اسکی عدالتی تحقیقات کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمِ غفیر میں اچانک ہی دو مسلح جنگجو نمودار ہوگئے جنہوں نے لون کے تئیں خراجِ عقیدت کے بطور کئی گولیاں چلا کر اُنہیں گن سیلوٹ دے دیا
محمد یوسف لون ولد ثناءاللہ ساکن گڈورہ کی گولیوں سے چھلنی لاش کل نیوہ نامی گاوں میں ایک نالے سے بر آمد کی گئی اور مذکورہ کی شناخت ہوجانے کے ساتھ ہی یہ خبر پورے علاقہ میں جنگل کی آگ ہوگئی جسکے ساتھ ہی ہزاروں لوگوں نے مقتول کے آبائی گاوں پہنچنا شروع کیا۔لون کی نمازِ جمعہ سے قبل اور مابعد کم از کم دو بار نمازِ جنازہ پڑھی گئی اور دونوں بار اس میں لوگوں کی بڑی تعداد شامل ہوئی۔اس دوران جمِ غفیر میں اچانک ہی دو مسلح جنگجو نمودار ہوگئے جنہوں نے لون کے تئیں خراجِ عقیدت کے بطور کئی گولیاں چلا کر اُنہیں گن سیلوٹ دے دیا۔
مقتول کے لواحقین اور آس پڑوس کے لوگوں نے سرکاری فورسز پر الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جمعرات کی رات کو پڑوس کے ہکری پورہ گاوں کا کریک ڈاون کیا گیا تھا اور محمد یوسف لون اسی دوران لاپتہ ہوگئے تھے۔لوگوں کا الزام ہے کہ لون کو در اصل سرکاری فورسز نے ہی قتل کر دیا ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا تھا”رات دس بجے ہم نے چند گولیاں چلنے کی آواز سنی تھی حالانکہ تب ہکری پورہ کا محاصرہ جاری تھا،یہاں پولس کی یہ کہانی ماننے کو کوئی تیار نہیں ہے کہ یوسف کو مجاہدوں نے مار ڈالا ہے“۔
مقتول شخص کے لواحقین کا کہنا ہے کہ جمعرات کی سہ پہر کو لون زیرِ تعمیر اپنے مکان کی جانب نکلے تھے اور پھر واپس نہیں لوٹے۔اُنکا کہنا ہے”ہم نے اُسے کئی بار فون کیا لیکن بات نہیں ہوپائی،پریشانی کے عالم میں ہم رات بھر نہ سو سکے اور صبح سویرے ہمیں کسی نے بتایا کہ اُسکی گولیوں سے چھلنی لاش ایک نالے میں پڑی ہوئی ہے“۔
وکلاءتنظیم جموں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اسکیعدالتی تحقیقات کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے
پندرہ سال کی بیٹی سمیت تین بچوں کے والد، 45 سال کے، محمد یوسف لون کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ گاوں کے دیگر لوگوں کی طرح عام زندگی گذارتے تھے تاہم جنگجووں کے ساتھ روابط کے الزام میں اُنہیں کئی بار گرفتار کیا جاچکا ہے۔ایک مقامی اخبار نے کسی نا معلوم پولس افسر کو یہ کہتے ہوئے بتایا ہے کہ مذکورہ جنگجووں کے اعانت کار کے بطور کام کرتے تھے اور اُنہیں کسی وجہ سے خود جنگجووں نے ہی قتل کردیا ہے۔پولس نے ایک بیان میں کہا ہے”اُسکی لاش تو اُس گاوں سے دو کلومیٹر دور ملی ہے کہ جہاں فورسز نے محاصرہ کیا ہوا تھا۔فورسز کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ہماری ابتدائی تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ جنگجووں نے گذشتہ رات اُسے ہلاک کردیا ہے۔ہم نے ایک معاملہ،زیرِ نمبر174/2017،تحت دفعہ302 درج کیا ہے اور مزید تحقیقات جاری ہے“۔
اگر اس شخص کو جنگجووں نے قتل کیا ہوتا تو وہ کسی صورت اُنکے جنازے میں شامل نہیں ہوتے اور اُنہیں ”سلامی“نہیں دیتے
پلوامہ میں اس واقعہ کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے اور لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا گیا۔کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر اس شخص کو جنگجووں نے قتل کیا ہوتا تو وہ کسی صورت اُنکے جنازے میں شامل نہیں ہوتے اور اُنہیں ”سلامی“نہیں دیتے۔یاد رہے کہ جنوبی کشمیر میں ابھی جنگجووں کا دبدبہ قائم ہے اور وہ جہاں سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر فوجی وردی میں ملبوس اپنی تصاویر پھیلارہے ہیں وہیں کسی بھی ساتھی کے مارے جانے پر اُسکے جلوسِ جنازہ میں اُسے ”گن سیلوٹ“دینے کو بھی معمول بنایا گیا ہے۔پولس کا کہنا ہے کہ ایسا کرکے جنگجو دراصل جنگجوئیت کے ساتھ ایک طرح کا ”ہیروازم“جوڑکر مزید نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں۔
لون کے قتل کے مشکوک ہوجانے پر وکلاءتنظیم جموں کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اسکیعدالتی تحقیقات کرائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔بار نے مقامی لوگوں کے الزام کو پیش نظررکھتے ہوئے شک ظاہر کیا ہے کہ مذکورہ کو محاصرے کے دوران سرکاری فورسز نے اُٹھا کر قتل کردیا ہے لہٰذا اس واقعہ کی کسی جوڈیشل افسر کی نگرانی میں تحقیقات کرائی جانی چاہیئے۔