سرینگر//نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ فاروق عبداللہ نے وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حالات کو معمول پر لانے کے لئے ریاستی اسمبلی کو معطل کرکے گورنر راج کے نفاذ کو ناگزیر بتایا ہے۔ریاست کے حکمران اتحاد کو سیاسی ایجنڈا سے خالی قرار دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا ہے کہ بی جے پی اور پی ڈی پی نے محض اقتدار حاصل کرنے کے لئے ایک ایسا اتحاد کیا ہے کہ جو لوگوں کو نا قابلِ قبول ہے۔
”مبینہ ایجنڈآف ایلائنس کے چھیتھڑے اڑگئے ہیں اور بی جے پی نے اسے غلط ثابت کردیا ہے اور جہاں تک پی ڈی پی کا تعلق ہے اس نے اس ایجنڈا آف ایلائنس کومفتی صاحب کے انتقال پر ہی دفن کردیا تھا“۔
حکمران اتحاد کے بیچ ایجنڈا آف ایلائنس نام کے معاہدے کو ”مبینہ“بتاتے ہوئے ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا ہے ”مبینہ ایجنڈآف ایلائنس کے چھیتھڑے اڑگئے ہیں اور بی جے پی نے اسے غلط ثابت کردیا ہے اور جہاں تک پی ڈی پی کا تعلق ہے اس نے اس ایجنڈا آف ایلائنس کومفتی صاحب کے انتقال پر ہی دفن کردیا تھا“۔بی جے پی اور پی ڈی پی نے حکومت بناتے وقت آپس میں ”ایجنڈا آف ایلائنس“نام سے ایک جامع معاہدہ طے کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور کہا تھا کہ اس دستاویز کے مطابق حکومت کرکے ریاست کی تعمیروترقی کے ساتھ ساتھ یہاں قیام امن بھی ممکن ہوجائے گا۔حالانکہ حالیہ ایام میں بھی پی ڈی پی نے کئی بار دعویٰ کیا ہے کہ اس ایجنڈا پر عمل کرکے وادی کشمیر کو موجودہ نا مساعد حالات سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔واضح رہے کہ اس معاہدے میں اور باتوں کے علاوہ مسئلہ کشمیر سے متعلق اندرون ریاست اورہندوپاک کے مابین مذاکرات کرانے کے جیسی باتیں بھی درج ہیں اگرچہ اس حوالے سے ابھی تک کوئی اقدام ہوتے نہیں دیکھا جا سکا ہے۔
حکمران اتحاد کی جانب سے محبوبہ مفتی کی جگہ بھاجپا کا وزیرِ اعلیٰ بنائے جانے کے امکانات کے حوالے سے پوچھے جانے پر فاروق عبداللہ نے کہا کہ چونکہ بی جے پی اور پی ڈی پی کا پورا اتحاد ہی ناکام ثابت ہوا ہے لہٰذا وزیرِ اعلیٰ کو بدل دئے جانے سے ہی حالات کے معمول پر آنے کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ نے الزام لگایا کہ حکمران اتحاد ناکام ہوچکا ہے اور وہ اپنے سیاسی وعدے پورا کرنے کی صلاحیت سے بھی خالی ہے۔اُنہوں نے کہا”بیچ راستے گھوڑے بدل دینے سے کچھ نہیں ہوسکتا ہے ….یہ سرکار انتہائی حد تک بدنام ہوکر لوگوں کا بھروسہ اور حمایت کھو چکی ہے ،جیسا کہ ہر گذرتے دن واضح ہوتا جارہا ہے،اور جیسا کہ دو ایک روز قبل ایک سرکاری تقریب میں شامل خواتین کے نعرہ بازی کرنے اور وزیر اعلیٰ کو سننے پر آمادہ نہ ہونے سے سمجھا جا سکتا ہے“۔انہوں نے مزید کہا ” اگرچہ گورنر راج کا نفاذ صورتحال کا مثالی حل تو نہیں ہے لیکن موجودہ حالات میں،کہ جب ریاست کو واپس غیر یقینیت کی جانب دھکیل دیا گیا ہے اور یہاں نوے کی دہائی کے جیسے حالات پیدا کئے گئے ہیں،یہ(گورنرراج)واحد راستہ بچا ہے“۔فاروق عبداللہ نے گورنر راج کے نفاذ کی زوردار وکالت کرتے ہوئے مزید کہا”گورنر راج کے نفاذ سے غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور ایسے میں انتظامیہ بھی سیاسی طور غیر جانبدار ہوجائے گی جس سے بنیادی انتظامیہ بحال ہوسکے گی“۔
”بیچ راستے گھوڑے بدل دینے سے کچھ نہیں ہوسکتا ہے ….یہ سرکار انتہائی حد تک بدنام ہوکر لوگوں کا بھروسہ اور حمایت کھو چکی ہے ،جیسا کہ ہر گذرتے دن واضح ہوتا جارہا ہے،اور جیسا کہ دو ایک روز قبل ایک سرکاری تقریب میں شامل خواتین کے نعرہ بازی کرنے اور وزیر اعلیٰ کو سننے پر آمادہ نہ ہونے سے سمجھا جا سکتا ہے“۔
قابلِ ذکر ہے کہ ابھی حال ہی میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ سکیورٹی اداروں نے بھی جموں کشمیر میں گورنر راج کے نفاذ کی تجویز دیتے ہوئے مرکزی وزارتِ داخلہ کو یہ کہا ہے کہ ایسے میں،حالات کو معمول پر لانے کے لئے لازمی، بعض سخت اقدامات اٹھانا آسان ہوجائے گا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وادی کشمیر کی انتہائی خراب صورتحال کی وجہ سے نہ صرف یہاں امن و قانون کا مسئلہ بنا ہوا ہے بلکہ بلکہ بنیادی انتظامیہ کے کام بھی بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔