شوپیان//
جنوبی کشمیر میں جاری فوجی آپریشن کے دوران بدھ کو ،حالیہ ایام میں،اپنی نوعیت کے دوسرے بڑے کریک ڈاون کے تحت فوج اور دیگر سرکاری فورسز نے ایک وسیع علاقے کو محاصرے میں لیکر یہاں گھر گھر تلاشی لی تاہم اب کے بھی سرکاری فورسز کے ہاتھ کچھ نہیں لگا ہے۔ اس دوران محاصرے کے دوران لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کرنے کے علاوہ زبردست مزاحمت کی جسکے دوران فورسز نے آنسو گیس کے علاوہ پیلٹ گن چلا کر درجنوں افراد کو زخمی کر دیا ہے۔ مقامی لوگوں نے فورسز پر مکانوں کی توڑ پھوڑ کرنے اور سرگرم جنگجووں کے رشتہ داروں کی شدید مارپیٹ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ پولس نے تاہم اس ”الزام“کو مسترد کر دیا ہے۔
فوج کی44اور55راشٹریہ رائفلز(آر آر)،ریاستی پولس اور دیگر سرکاری فورسز نے ہف شرمال شوپیاں کے ایک وسیع علاقے کا منگل اور بدھ کی رات محاصرہ کر لیا تھا۔ پولیس ذرائعکے مطابق علاقے میں درجن بھر جنگجووں کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر کئے گئے اس کریک ڈاون میں قریب1000 اہلکارشامل تھے۔دو ہفتوں کے دوران میں یہ اپنی نوعیت کا دوسرا بڑا کریک ڈاون تھا کہ اس سے قبل قریب پانچ ہزار اہلکاروں نے شوپیاں کے ہی مختلف علاقوں کو محاصرے میں لیکر یہاں جنگجووں کی تلاش میں کسی کامیابی کے بغیر خاک چھانی تھی۔
ہمیں باہر نہیں آںے دیا جارہا تھا لیکن مارپیٹ کا شکار ہونے والوں کے چیخنے چلانے اور کراہنے کی آوازیں سنکر لوگوں سے رہا نہیں گیا اور اُنہوں نے کھڑکیوں سے چھلانگیں لگاکر گلی کوچوں تک پہنچنے میں کامیابی پائی اور احتجاجی مظاہرے شرع کئے
ذرائع کے مطابق دورانِ شب محاصرہ کر لئے جانے کے بعد نمازِ فجر کے ساتھ ہی مساجد کے لاوڈ اسپیکروں پر اعلان کرایا گیا کہ علاقہ فوجی محاصرے میں ہے اور کوئی بھی شخص گھر سے باہر نہ آئے۔ان ذرائع کے مطابق اس اعلان کے جاری رہنے کے دوران ہی فوجی اہلکاروں نے گھروں کے دروازے کھٹکھٹائے اور تلاشی لینا شروع کیا۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ فوجی اہلکار ایک مقامی جنگجو کمانڈر صدام پڈر کے گھر میں داخل ہوتے ہی توڑ پھوڑ کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی کھڑکیاں،دروازے اور شیشے وغیرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے۔لوگوں کا الزام ہے کہ سرکاری اہلکاروں کو توڑ پھوڑ سے روکنے کی کوشش کرنے پرصدام کے والد غلام محی الدین، انکے چچا عبدالرشید اور چاچی زیبہ بیگم کی شدید مارپیٹ کرکے اُنکی ہڈی پسلی ایک کر دی گئی۔لوگوں کا کہنا ہے کہ دیگر محلوں میں بھی کئی گھروں کی توڑ پھوڑ کی گئی اور کئی لوگوں کے ساتھ انتہائی مارپیٹ کرکے انہیں زخمی کر دیا گیا۔بتایا جاتا ہے کہسرکاری فورسز نے خوشحال حمید اور اُنکے اہلِ خانہ، معراج الدین گنائی اور اُنکے گھر والوںکے علاوہ ایک دوکاندار بشیر احمد پڈر پر تشدد کرکے اُنہیں ادھ موا کرکے چھوڑ دیا۔ معراج الدین اور خوشحال حمید کی مارپیٹ کئے جانے کے بعد اُنہیں بعدازاںکو گرفتار کیا گیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ سرکاری فورسز جنگجووں کا اتہ پتہ پوچھ رہی تھیں اور لوگوں کی جانب سے اظہارِ لاعلمی کئے جانے پر کئی نوجوانوں کے علاوہ بڑے بزرگوں کی بھی شدید مار پیٹ کی گئی۔علاقے میں کئی لوگوں نے بتایا”گو ہر گھر کے پھاٹک پر کئی کئی اہلکار بٹھائے گئے تھے اور ہمیں باہر نہیں آںے دیا جارہا تھا لیکن مارپیٹ کا شکار ہونے والوں کے چیخنے چلانے اور کراہنے کی آوازیں سنکر لوگوں سے رہا نہیں گیا اور اُنہوں نے کھڑکیوں سے چھلانگیں لگاکر گلی کوچوں تک پہنچنے میں کامیابی پائی اور احتجاجی مظاہرے شرع کئے“۔سرکاری فورسز نے تاہم لاٹھی چارج کے علاوہ،آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور پھر پیلٹ فائرنگ بھی کی جس سے قریب 25افراد زخمی ہوگئے ہیں۔مقامی لوگوں نے تاہم اس حد تک مزاحمت کی کہ تمام تر طاقت کے باوجود سرکاری فورسز کو محاصرہ ختم کرکے چلا جانا پڑا البتہ جاتے جاتے اچھن اور دیگر علاقوں میں گھات میں بیٹھے نوجوانوں نے ان پر زبردست پتھراو کیا جسکے جواب میں فورسز نے ایک بار پھر اشک آور گیس کے گولوں کی شلنگ کرنے کے علاوہ ہوائی فائرنگ کی۔پورے علاقے میں دیر گئے تک احتجاجی مظاہرے جاری تھے اور حالات انتہائی کشیدہ بتائے جارہے تھے۔
پولیس کے ایک بیان میں محاصرے کے دوران کسی قسم کی زیادتی کئے جانے سے مکمل انکار کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے” جنگجوﺅں کو ڈھونڈ نکالنے کیلئے ہف شرمال کا کریک ڈاﺅن کیا گیا تاہم پولیس نے شر پسند عناصر کے خلاف صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جو تلاشی کارروائی میں رخنہ ڈالنا چاہتے تھے“۔پولیس کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں نے فورسز کا ساتھ دیااور کامیابی کیساتھ اختتام پذیر ہوا۔ پولس کا دعویٰ ہے کہ کریک ڈاﺅن کے دوران کسی بھی مکان کی توڑ پھوڑ یا لوگوں کی مارپیٹ پیٹ نہیں کی گئیہے اور نہ ہی کوئی شخص زخمی ہوا ہے۔