سرینگر//
جموں کشمیر کی بے سکون صورتحال،سیاسی غیر یقینیت اور وادی میں جنگجووں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور برف پگھلنے کے ساتھ ہی جنگجووں کی دراندازی کی کوششیں ہونے کے امکانات کو دیکھتے ہوئے سکیورٹی ایجنسیاں ریاست میں گورنر راج کے نفاذ کی سفارش کرچکی ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ سکیورٹی سے وابستہ اداروں نے مرکزی سرکار کو تجویز کرتے ہوئے کہا ہے کہ گورنر راج کے نفاذ سے ریاست میں ”سخت گیر عناصر“کو قابو کرنے اور وادی کی مجموعی صورتحال میں بہتری لانا آسان ہوسکتا ہے۔
وادی کشمیر میں ابھی صورتحال ،سکیورٹی ایجنسیوں کے لئے،پریشان کن ہے اور ایک طرف جہاں جنگجوئیت کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے وہیں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی زور پکڑنے لگا ہے۔جنوبی کشمیر،جسے روایتی طور حکمران پی ڈی پی کا گڈھ تصور کیا جاتا رہا ہے،میں جنگجووں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے سکیورٹی اداروں کو اور بھی زیادہ پریشان کیا ہوا ہے اور یہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتی صورتحال کو فوری قابو کرنے کے لئے کئی اقدامات پر غور کیا جارہا ہے۔یاد رہے کہ جنوبی کشمیر کے پلوامہ،شوپیاں اور کولگام اضلاع میں حالیہ دنوں نہ صرف سرکاری فورسز پر حملے ہوئے ہیں اور انسے ہتھیار لئے جانے کی کامیاب اور ناکام کئی کوششیں ہوئی ہیں بلکہ فوج کے ہاتھوں مارے گئے جنگجووں کے ساتھیوں نے انکے جنازوں میں شامل ہوکر انہیں فوج طرز پر گولیاں چلا کر سیلوٹ بھی دیا ہے۔علاوہ ازیں جنگجووں کی سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر بھی سرگرمیاں جاری ہیں یہاں تک کہ حالیہ ایام میں جاری ہوئے کئی ویڈیوز میںفوجی وردی پہنے ایک ساتھ تیس یا اس سے بھی زیادہ جنگجووں کو دیکھا جا چکا ہے جسکی وجہ سے نہ صرف جنگجووں کی موجودگی کا احساس ہوا ہے بلکہ مزید کئی نوجوان بندوق اٹھانے پر آمادہ ہوتے دیکھے گئے ہیں۔
حکومت کے ترجمان نعیم اختر کو یہ کہتے ہوئے بتایا ہے کہ انہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ ریاست میں گورنر راج کا نفاذ ہونے والا ہے یا ایسی مرکزی سرکار کے پاس تجویز ہے تاہم مرکزسرکار جب چاہے ایسا فیصلہ لے سکتی ہے۔
نئی دلی کے ایک انگریزی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے میں سکیورٹی اداروں نے مرکز کو گورنر راج کے نفاذ کی تجویز دی ہے اور کہا ہے کہ گورنر راج میں ”صخت گیر عناصر“کے ساتھ نپٹنا قدرے آسان ہو سکتا ہے۔واضح رہے کہ داخلہ سکریٹری مسٹر مہاریشی نے بھی اپنے حالیہ دورہ کشمیر کے دوران صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد ”امن بگاڑنے والوں“کے ساتھ سختی سے نپٹے جانے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔مذکورہ اخبار نے ریاستی حکومت میں وزیرِ تعمیرات اور حکومت کے ترجمان نعیم اختر کو یہ کہتے ہوئے بتایا ہے کہ انہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے کہ ریاست میں گورنر راج کا نفاذ ہونے والا ہے یا ایسی مرکزی سرکار کے پاس تجویز ہے تاہم مرکزسرکار جب چاہے ایسا فیصلہ لے سکتی ہے۔نعیم اختر نے مزید کہا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہوگا کہ ریاست میں گورنر راج نافذ کیا جائے تاہم انہیں نہیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے پہلے کبھی حالات سدھرے ہیں یا آئیندہ اس طرح کا کوئی انتظام کارگر ہوسکتا ہے۔
اخبار نے مزید کہا ہے کہ سرکاری ادارے بعض ”سنگبازوں“یا دیگراں کو ریاست سے نہ سہی کم از کم وادی سے باہر کے جیلوں میں بھیجنا چاہیں گے اور یہ سب گورنر راج میں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ سکیورٹی اداروں کو ایسا لگتا ہے کہ وادی کشمیر میں پی ڈی پی اور بی جے پی کے اتحاد کو قبول نہیں کیا جا سکا ہے اور یہ موجودہ خراب صورتحال اور بے چینی کی کئی وجوہات میں سے ایک ہے لہٰذا اگر گورنر راج قائم ہوتا ہے تو خرابی¿حالات کی کم از کم ایک وجہ تو ختم ہو ہی جائے گی۔یاد رہے کہ پی ڈی پی اور بھاجپا کے اتحاد کی حکومت کو ایک بھی دن سکون سے گذارنے کا موقعہ نہیں ملا ہے اور حزب اختلاف نیشنل کانفرنس کا دعویٰ ہے کہ یہ اسی ”نا قابلِ قبول سرکار“کی وجہ سے ہے کہ وادی کی صورتحال نوے کی دہائی کو لوٹ گئی ہے کہ جب یہاں کے حالات اس قدر خراب ہوگئے تھے کہ کسی بھی سرکار کا قابو باقی نہ رہا تھا۔
نعیم اختر نے مزید کہا ہے کہ سخت پالیسی اپنا کر بندوق برداروں کے ساتھ نپٹا تو جا سکتا ہے لیکن اکیلی فوجی سے مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ انتظامیہ کا اصل سامنا لوگوں کے ساتھ ہے۔دلچسپ ہے کہ جموں کشمیر کا اپنا الگ آئین ہے جسکی رو سے یہاں چھ ماہ تک کے لئے گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے اور اس دوران اسمبلی کو منسوخ بھی کیا جاسکتا ہے یا اسے معلق رکھا جاسکتا ہے اور اگر چھ ماہ کے دوران بھی حالات نہ سدھرے تو پھر صدر راج نافذ کیا جاسکتا ہے۔حالیہ ایام میں کئی بار گورنر راج کے نفاذ کی افواہیں اڑیں ہیں جنہیں گورنر این این ووہرا کے نئی دلی جاکر وزیر اعظم و دیگر شخصیات کے ساتھ میٹنگیں کرنے سے کافی تقویت ملی ہے۔این این ووہراہ2008میں پہلی بار ریاست کے گورنر بن کر آئے تھے اور انہیں سابق وزیر اعلیٰ مفتی سعید کی سفارش پر انکے عہدے کی پہلی مدت ختم ہونے پر بنائے رکھا گیا تھا۔ووہرا کے دور میں ریاست میں ،مختصر سہی،تین بار گورنر راج نافذ ہوا ہے۔