…اورذاکرموسیٰ’سیکیولر حزب‘سے باغی ہوگئے!

سرینگر//
اس وقت جبکہ وادی کشمیر میں جنگجوئیانہ سرگرمیوں میں شدت سرکاری ایجنسیوں کی ناک میں دم کرچکی ہے،یہاں کی سب سے بڑی جنگجو تنظیم حزب المجاہدین آپسی اختلافات کی شکار ہے۔تنظیم نے علیٰحدگی پسند قیادت سے متعلق بُرہان وانی کی جگہ کمانڈر بنائے جاچکے ذاکر موسیٰ کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے موسیٰ کو سلیقے سے دھمکی دی جسکے بعد موسیٰ نے حزب المجاہدین سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔موسیٰ نے یہ نہیں بتایا ہے کہ وہ اب کسی اور تنظیم میں جائیں گے یا پھر اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کھڑا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاہم انہوں نے آنے والے دنوں میں اس بات کو قابلِ مشاہدہ ضرور بتایا ہے کہ کون انکا ساتھ دیتاہے اور کون نہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر جاری کردہ ایک صوتی پیغام میں ذاکر موسیٰ نے کہا ہے”حزب المجاہدین نے خود کو میرے بیان سے الگ کردیا ہے سو میں خود کو حزب سے علیٰحدہ کرتا ہوں“۔اُنہوں نے مزید کہا ہے”آج کے بعد میں حزب یا کسی تنظیم کے ساتھ وابستہ نہیں ہوں“۔

حالانکہ تنظیم کی پاکستانی زیر انتظام میں مقیم قیادت اور ریاست میں سرگرم جنگجووں کے بیچ اختلافات اور سرحد پار بیٹھے لیڈروں کا میدان میں موجود جنگجووں پر تقریباََ نا ہونے کے برابر کنٹرول ہونے کی خبریں کچھ عرصہ سے گشت میں تھیں تاہم ان اختلافات کے طشت از بام ہونے کی وجہ ذاکر موسیٰ کا وہ صوتی پیغام بنا ہے کہ جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر کو ”مذہبی مسئلے کی بجائے سیاسی مسئلہ“قراردینے کے لئے علیٰحدگی پسندوں کو قتل کی دھمکی دی تھی۔ذاکر موسیٰ نے کہا تھا”ہم ان سیاسی منافقوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے تو پھر آپ لوگ آزادی کا مطلب کیا-لاالہ الااللہ اور پاکستان سے رشتہ کیا-لا الہ الااللہ کے جیسے نعرے کیوں لگاتے ہو،تم لوگ کیوں مساجد میں جاکر لوگوں سے خطاب کرتے پھرتے ہو“۔علیٰحدگی پسند قیادت،جنہیں جنگجووں کے ترجمان سمجھا جاتا رہا ہے،کو پہلی بار راست دھمکی دیتے ہوئے حزب کمانڈر نے کہا ہے”ہم ان حریت والوں سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے معاملے میں دخل نا دیں اور خود کو اپنی گندی سیاست تک محدود رکھیں نہیں تو ہم انکے سر کاٹ کر انہیں (سرینگر کے) لالچوک میں لٹکا دینگے“۔

ملی ٹینسی کے آغاز سے ابھی تک کئی معروف کمانڈروں یا جنگجووں نے حزب سے علیٰحدگی اختیار کرکے اپنی الگ تنظیمیں بنائیں یا دیگر گروپوں میں شمولیت اختیار کی تاہم وہ تنظیمیں یا اشخاص حزب سے الگ ہوکراپنا الگ وجود منوانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔

پانچ منٹ چالیس اسکینڈ کے اس بیان نے تہلکہ مچادیا تھا اور اس پر بڑی بحث جاری تھی یہاں تک کہ حزب المجاہدین کی مظفر آباد میں مقیم قیادت نے آج صبح ایک بیان جاری کرتے ہوئے ذاکر کے بیان کو ”اُنکی ذاتی سوچ“بتاتے ہوئے نہ صرف خود کو اس سے الگ کردیا بلکہ اسے نا قابلِ قبول بھی قرار دیا گیا۔حزب کے مرکزی ترجمان سلیم ہاشمی کی جانب سے جاری ہوئے اس تنبیہی بیان میں کہا گیا ہے ”مزاحمتی قیادت اور کشمیری عوام مشترکہ کوششوں سے تحریک چلا رہے ہیں،ان حالات میں کوئی اشتعال انگیز بیان یا اقدام تحریک کے لئے ہلاکت خیز ثابت ہو سکتا ہے“۔ذاکر کو سلیقے سے دھمکی دیتے ہوئے حزب المجاہدین نے کہا ہے حزب ذاکر موسی کے بیان کا تجزیہ کر رہی ہے اور ضرورت پڑنے تحریک کے مفادکیلئے ”کوئی بھی اقدکرنے یا قربانی دینے سے گریز نہیں کیا جائے گا“۔

اس بیان کے تھوڑا ہی وقفے کے بعد ذاکر موسیٰ نے ایک اور سنسنی خیز صوتی پیغام جاری کرکے خود کو نہ صرف حریت قیادت سے متعلق اپنے بیان پر قائم بتایا بلکہ انہوں نے حزب المجاہدین سے علیٰحدگی کا اعلان کردیا۔تاہم انہوں نے یہ صفائی ضرور دی ہے کہ انہوں نے سبھی حریت قائدین کے نہیں بلکہ ”فقط سکیولر کشمیر“بنانے کی باتیں کرنے والوں کے سرکاٹنے کا کہا ہے۔ذاکر نے مزید کہا ہے”میں جانتا ہوں کہ ہمیں سب سے پہلے بھارتی قبضے سے خود کو چھڑانا ہے لیکن ہماری منزل واضح اور غیر مبہم ہونی چاہیئے کہ ہم اسلام کے لئے میدان میں ہیں“۔ ذاکر موسیٰ نے مزید کہا ہے کہ وہ ایک سکیولر ریاست کے لئے اپنا خون نہیں بہا سکتے ہیں۔

ذاکر موسیٰ حزب المجاہدین کے سب سے معروف لیڈر بُرہان وانی کے قریبی رہے ہیں اور انہیں وانی کے مارے جانے پر انکا جانشین بنایا گیا تھا۔ذاکر موسیٰ ابھی وادی میں سب سے معروف جنگجو کمانڈر مانے جاتے ہیں تاہم سرکاری ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ وہ اور وادی میں سرگرم دیگر جنگجو پوری طرح سرحد پار کی قیادت کے کنٹرول میں نہیں ہیں بلکہ بہت حد تک خود مختاری کے ساتھ سرگرم ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہوگی کہ جنوبی کشمیر میں،جہاں ذاکر اینڈ کمپنی سرگرم ہے،ابھی چند روز قبل ایک نوجوان فوجی افسرکا اغوا کے بعد قتل کیا گیا جسکے لئے پولس نے حزب المجاہدین کو ملوث بتایا تاہم حزب کی سرحد پار والی قیادت نے نہ صرف اس الزام کو مسترد کردیا ہے بلکہ پہلی بار کسی فوجی کے مارے جانے کی مذمت بھی کی ہے۔ذاکر موسیٰ نے اگرچہ اس قتل کی ذمہ داری نہیں لی ہے تاہم انہوں نے سید صلاح الدین کے برعکس اس سے انکار یا اسکی مذمت بھی نہیں کی ہے۔

حزب المجاہدین اتنی ہی پُرانی ہے کہ جتنا خود جموں کشمیر کی ملی ٹینسی اور باقی تنظیموں کے مقابلے میں مقامی جنگجووں کی اکثریت رکھنے والی یہ تنظیم ہمیشہ ہی ریاست میں سرگرم سب سے بڑی جنگجو تنظیم مانی جاتی رہی ہے۔ جموں کشمیر میں ملی ٹینسی کے آغاز سے ابھی تک کئی معروف کمانڈروں یا جنگجووں نے حزب سے علیٰحدگی اختیار کرکے اپنی الگ تنظیمیں بنائیں یا دیگر گروپوں میں شمولیت اختیار کی تاہم وہ تنظیمیں یا اشخاص حزب سے الگ ہوکراپنا الگ وجود منوانے میں کام نہیں ہوسکیں۔

Exit mobile version