دربار مو کا خاتمہ، انجینئر رشید کی بھاجپا کو حمایت

سرینگر//

جموں کشمیر میں حکومت کی شراکت دار بی جے پی کی جانب سے دربارمو کے عمل کے خاتمے کی تجویز ایک تنازعے کو جنم دینے لگی ہے کہ عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی)نے اس تجویز کی حمایت تو کی ہے تاہم سرینگر کو ریاست کی واحد راجدھانی قرار دئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔پارٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق آج سرینگر میں مختلف طبقہ فکر کے لوگو ں سے تبادلہ خیال کے دوران اے آئی پی کے سربراہ اور ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے کہا ”سال میں دو بار دربار مو کے نام پر نہ صرف خطیر رقم خرچ ہوتی ہے بلکہ اس عامرانہ روایت کا ریاست کے لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ نہ صرف بیوروکریٹوں اور سیاستدانوں کو دربار مو کے بہانے عیاشی اور سیر و سیاحت کرنے کا موقعہ ملتا ہے بلکہ اس بیہودہ عمل سے سرکاری کام کاج بری طرح متاثر ہوتا ہے“ ۔انجینئر رشید نے بھاجپا کی دی ہوئی تجویز کی شرطیہ حمایت کرتے ہوئے کہا ہے” ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اہم معاملے کو سیاست سے بالا تر رکھ کر انتظامی مسئلے تک محدود رکھا جائے“۔تاہم انہوں نے سرینگر کو ریاست کا مستقل دار الخلافہ بنادئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ بی جے پی نے کل ہی ریاست میں آزادی سے قبل سے چلی آرہی ”دربار مو“کی روایت کو ختم کرکے ریاست کے دفاتر کی تقسیم کرکے انہیں مستقل طور جموں اور سرینگر میں مقیم رکھنے کی تجویز دی تھی۔بھاجپا کے ترجمان وریندر گپتا کا کہنا ہے”دربار مو کا عمل ختم کردیا جانا چاہیئے اور اسکی بجائے دفاتر کی تقسیم کرکے انہیں جموں اور سرینگر میں مستقل طور مقیم رکھا جانا چاہیئے“۔دلچسپ اور اہم ہے کہ گپتا کے بیان کی اسمبلی کے اسپیکرکویندر گپتا،جو خود بھاجپا کے لیڈر ہیں،نے کھل کر حمایت کی اور کہا کہ دربار مو پر ریاستی خزانے کو بہت سرمایہ لٹانا پڑتا ہے۔

جموں کشمیر کی،سرینگر اور جموں، دو راجدھانیاں ہیں اور 1872سے حکومت ان دونوں شہروں کو چھ چھ ماہ کے لئے منتقل ہوتی آرہی ہے۔ہزاروں ملازمین،سو بھر کے قریب دفاتر،لاکھوں فائلوں اور دیگر سازوسامان کو سال میں دو بار ایک دوسرے سے تین سو کلومیٹر دور ان دو شہروں کو منتقل کرنے میں سرکار کو سالانہ ہزاروں کروڑ روپے کا سرمایہ خرچ کرنے کے علاوہ ملازمین کے لئے اقامتی و دیگر انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔ دربار مو کو ختم کر دئے جانے کی خواہش ایک بار سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی ظاہر کی تھی تاہم انہیں بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جسے دیکھتے ہوئے وہ اس خواہش کو تجویز تک کا لباس پہنانے کی ہمت نہیں کر سکے تھے۔

Exit mobile version