صوفی اِزم سرنڈر نہیں سکھاتا ہے:قاضی یاسر

اسلام آباد // جموں کشمیر کے ایک نوجوان عالم دین اور جنوبی کشمیر کے میرواعظ قاضی احمد یاسر نے الزام لگایا ہے کہ سرکاری ایجنسیاں ”صوفی اسلام“کو سیاست کے ساتھ جوڑکر جموں کشمیر میں فرقہ واریت کی آگ لگانا چاہتی ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ جموں کشمیر کے عوام کی غالب اکثریت چاہے مذہب کے کسی بھی نظریہ کے حامل ہوں لیکن ان میں یہ چیز قدر مشترکہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو متنازعہ مانتے ہیں اور اسکے پُرامن حل کے نہ صرف خواہاں ہیں بلکہ اسکے لئے کوششیں بھی کرتے ہیں۔ریاست کی علیٰحدگی پسند قیادت کی سوچ کے برعکس انہوں نے کہا ہے کہ ریاست میں اسمبلی یا پارلیمنٹ کے لئے ہونے والے انتخابات کا مسئلہ کشمیر پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا ہے تاہم انہوں نے قیادت کی ”بائیکاٹ کال“کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنوبی کشمیر کے نوجوان میرواعظ نے کہا کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اور اسکی وجہ سے ریاست کے عوام بُری طرح متاثر ہوتے آرہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ چاہے یہاں کے لوگ مذہب کے کسی بھی نظریہ کے ماننے والے ہوں لیکن وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے یہ مشترکہ سوچ رکھتے ہیں کہ اس مسئلے کو لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل کیا جانا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ یہ کہکر ،کہ ”صوفی اِزم“کے فروغ سے جموں کشمیر کی سیاست کو متاثر کیا جا سکتا ہے یا یہاں کے حالات میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے،در اصل سرکاری ایجنسیاں مسلمانوں کو فرقہ واریت میں بانٹنے کی کوشش کر رہی ہیں۔قاضی یاسر کا اشارہ حال ہی نئی دلی میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران سابق فوجی کمانڈر جنرل حسنین اور وزارتِ داخلہ میں تعینات سینئر آئی پی ایس افسر ایس ایم سہائے کے اس مباحثے کی طرف تھا کہ جس میں انہوں نے جموں کشمیر میں نام نہاد ”وہابی اسلام“کو پریشانیوں کی جڑ بتا کر ”صوفی اسلام“کے فروغ کو امن کی شاہ کلید بتایا تھا۔
1987میں مذہبی ،سیاسی و سماجی تنظیموں کے اتحاد مسلم متحدہ محاذ،جس کے انتخابی نتائج میں زبردست دھاندلیوں کو جموں کشمیر کی موجودہ صورتحال کی ایک بڑی وجہ مانا جاتا ہے،کے بانی لیڈر اور اُسوقت کے میرواعظ جنوبی کشمیر قاضی نسار احمد کے فرزند و جانشین قاضی احمد یاسراپنے والد کی ہی طرح ایک وسیع حلقہ¿ اثر رکھتے ہیں اور اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب و مجاور ہونے کے علاوہ کئی مذہبی اداروں کے مہتمم بھی ہیں۔قاضی نسار احمد سید گیلانی سمیت دیگر لیڈروں کے ساتھ مسلم متحدہ محاذ کے روح رواں تھے تاہم ریاست میں جنگجوئیت کا آغاذ ہونے کے بعد انہیں نامعلوم بندوق برداروں نے اغوا کرکے جاں بحق کردیا تھا۔قاضی احمد یاسر نے صوفیائے اسلام کو ایک الگ رنگ میں پیش کرنے اور صوفی اسلام بتاکر ابہام کی صورتحال پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ایسا کہکر جموں کشمیر میں فرقہ واریت پھیلاکر کچھ اور ہی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ خود کشمیر میں کئی صوفی بزرگوں نے اپنے وقت میں نا انصافی اور ظلم کے خلاف جدوجہد بھی کی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ صوفیت در اصل سرنڈر کا نام نہیں ہے۔انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا”میرک شاہ صاحب ،جو ایک بڑے صوفی بزرگ گذرے ہیں،1929میں ظلم کے خلاف خوب لڑے ہیں جبکہ قاضی قمر الدین نے 1920میں بڑی جدوجہد کی ہے جسکی تفصیل تاریخ کے اوراق میں موجود ہے“۔انہوں نے کہا ” کشمیری مسلمان کبھی بھی فرقہ واریت کا شکار نہیں رہے ہیں بلکہ میرے والد قاضی نے تو یہ مثال بھی چھوڑی ہے کہ ہمارے یہاں کے اہل حدیث بھائیوں کی عید گاہ میں ایک حنفی عالم نے خطبہ دیا اور شیعہ عالم نے نماز پڑھائی“۔ایک سوال کے جواب میں قاضی احمد یاسر نے کہا کہ وہ جموں کشمیر میں مین اسٹریم کی کسی بھی پارٹی کو ایک دوسرے سے بہتر یا بد تر نہیں سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ بی جے پی نے مسلمانوں کے ساتھ بہت برا کیا ہے لیکن کانگریس بھی کسی سے کم نہیں ہے۔قاضی نے کہا کہ جموں کشمیر میںمین سٹریم کی مقامی جماعتیں وقت وقت پر بابری مسجدکو شہید کرنے والی بھاجپا سے اتحاد کرچکی ہیں اور افضل گورو کو پھانسی دلوانے والوں کو بھی ان لوگوں کا ساتھ حاصل رہا ہے لہٰذا کشمیریوں کے لئے ان جماعتوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیئے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا”جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے نہیں لگتا ہے کہ انتخابات کسی بھی طرح مسئلہ کشمیر کی حیثیت کو متاثر کرتے ہیں لیکن ہم اپنے لوگوں سے کہیں گے کہ وہ حریت کانفرنس کی کال پر عمل کرتے ہوئے پارلیمانی انتخابات سے دور رہیں“۔واضح رہے کہ سرینگر اور اسلام آباد کی دو پارلیمانی نشستوں پر اگلے ہفتے ضمنی انتخابات کے لئے ووٹ ڈالے جانے والے ہیں اور علیٰحدگی پسندوں نے دیگر انتخابات کی ہی طرح اس بار بھی بائیکاٹ کی کال دی ہوئی ہے۔علیٰحدگی پسندوں کا ماننا ہے کہ انتخابات میں لوگوں کی شرکت سے عالمی سطح پر حکومت ہند مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ”غلط فہمی“پیدا کرتی ہے۔

Exit mobile version