مودی کو گیلانی کا مشورہ مان ہی لینا چاہیئے:سوز

پروفیسر سیف الدین سوز

سرینگر// سرکردہ کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے وزیر اعظم نریندر مودی کو بزرگ علیٰحدگی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی کا مشورہ مان لینے کی تجویز دی ہے۔پروفیسر سوز نے کہا ہے کہ ہندوستا ن میں کشمیر کی سیاست کو سمجھنے والی سرکردہ شخصیات کا اندازہ ہے کہ حریت کا تازہ مشورہ صحیح سمت کی طرف ایک اچھا قدم ہے۔

ایک بیان میں پروفیسر سوز نے کہا”میری رائے میں حریت لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو صحیح مشورہ دیا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کےلئے ایک دانشور اور مدبر سیاستدان کا رول ادا کرے،حریت کے باقی قائدین بھی اِسی رائے کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں کشمیر کی سیاست کو سمجھنے والی سرکردہ شخصیات کا اندازہ ہے کہ حریت کا تازہ مشورہ صحیح سمت کی طرف ایک اچھا قدم ہے،ان سرکردہ مبصرین کی رائے میں مودی کے نزدیکی صلاح کار اُن کو صحیح مشورہ نہیں دیتے جب و ہ بار بار ”انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت “ کا کھوکھلا نعرہ دہراتے رہتے ہیں، اِس نعرے میں کشمیریوں کو اُ ن کا (یعنی مودی جی کا ) ہلکا پن نظر آتا ہے اور کشمیر کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اُن کے ساتھ اس بے مقصد نعرے کے ذریعے مذاق کیا جاتا ہے۔پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا” وزیر اعظم مودی کو یہ سوچنا چاہئے کہ تعمیر و ترقی کے سارے منصوبے اُس قوم کےلئے بے معنی ہو جاتے ہیں جن کے قلب و ذہن میں اضطراب ،مایوسی اور پریشانی محیط ہو اور اُن کی نفسیات زخمی ہو چکی ہو۔ ایسی قوم سب سے پہلے اپنے قلب و ذہن میں بامقصد اور روح پرور سکون کی متلاشی ہوتی ہے“۔

اس دوران علیحدگی پسند حریت کانفرنس نے وزیر اعظم کی جانب سے کشمیریوں کو سیاحت یا دہشت گردی میں سے کسی ایک چیز کو لینے کا مشورہ دئے جانے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری عوام نہ تو سیاحت کیخلاف ہےں اور نہ دہشت گردی کے ساتھ۔حریت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے”کشمیری عوام نہ تو دہشت گرد ہی ہیں اور نہ تعمیر و ترقی کیخلاف بلکہ یہاں کے عوام اُس دیرینہ تنازعہ کشمیر کا ایک آبرومندانہ حل چاہتے ہیں جو نہ صرف برصغیر ہندوپاک کے سیاسی استحکام اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے بلکہ پورے جنوب ایشیائی خطے کے کروڑوں عوام کے محفوظ مستقبل کی راہ میں سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے“ ۔بیان میں کہا گیا کہ کشمیری نوجوان نہ تو انتہا پسند ہے اور نہ وہ شوقیہ اپنے ہاتھوں میں پتھر اٹھاتا ہیں بلکہ یہ اُس ظلم، تشدد اور زیادتی کا ردعمل ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ان پر ڈھایا جارہا ہے اور آج بھی یہاں کے ہزاروں نوجوان کشمیر اور بھارت کی دیگر ریاستوں کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں ۔بیان کے مطابق یہاں کے عوام نے ہر دور اور ہر قسم کے برے حالات میں سیاحوں کو خوش آمدید کہا ہے اور ان کی روایتی مہمان نواز کی ہے مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مسئلہ کشمیر ایک زندہ حقیقت ہے اور اس انسانی اور سیاسی مسئلہ کو حل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ سڑکوں یا ٹنلوں کی تعمیر پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلہ کو اس کے تاریخی تناظر میں حل کرنے کیلئے بامعنی اقدامات اٹھائے جائیں۔

Exit mobile version