… اور اب فاروق عبداللہ اآر ایس ایس کو روکیں گے!

سرینگر(نمائندہ تفصیلات)
ٹھیک اسی طرح کہ جس طرح 2014کے عام انتخابات میں مفتی سعید کی پی ڈی پی نے کشمیریوں میں سنگھ پریوار کا ڈر بٹھا کر انسے ووٹ حاصل کیا تھا، نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے بھی سرینگر اور اسلام آباد کی پارلیمانی نشستوں کے انتخابات سنگھ پریوار کے ارد گرد گھما کر ہی لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔نیشنل کانفرنس کے صدر اور سرینگر کے حلقہ انتخاب سے نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد کے امیدوار فاروق عبداللہ نے گزشتہ روز کاغذات نامزدگی دائر کرتے وقت ہی کہا تھا کہ ”وقت کا تقاضہ ہے کہ سیکولر طاقتیں متحدہ ہوکر ریاست جموں وکشمیر کو فرقہ پرستی کی آگ کی نذر ہونے سے بچائیں“۔
اس پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اس اتحاد نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں سے ”آر ایس ایس کو جموں کشمیر سے دور رکھنے کے لئے ووٹ مانگا جائے گا“۔یاد رہے کہ وادی کشمیر میں سرینگر اور اسلام آبادکی پارلیمانی نشستیں محبوبہ مفتی اور طارق قرہ کے گزشتہ سال مستعفی ہوجانے پر خالی ہو چکی تھیں اور اب ان نشستوں کے لئے اگلے ماہ کی 9اور12تاریخ کو ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔محبوبہ مفتی نے اپنے والد مفتی سعید کے انتقال کے بعد وزیر اعلیٰ بننے پر پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا جبکہ انہی کی پارٹی کے سینئر لیڈر طارق قرہ نے پارٹی اور پارلیمنٹ دونوں سے گزشتہ سال کی عوامی تحریک کے دوران استعفیٰ دیا تھا۔طارق قرہ حال ہی کانگریس میں شامل ہوگئے ہیں اور ابھی اتحادی امیدوار فاروق عبداللہ کے لئے تشہیری مہم چلارہے ہیں کہ جنہیں گزشتہ انتخابات میں ہرا کر وہ ہیرو بن گئے تھے۔
اسلام آبادمیں انتخابی حکمت عملی کی ترتیب کے لئے آج نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے لیڈروں کی مشترکہ میٹنگ منعقد ہوئی جس میں انتخابات کو جیتنے کے لئے حکمت عملی پر غور کیا گیا۔میٹنگ کے بعد نیشنل کانفرنس کے علی ساگر اور کانگریس کے غلام احمد میر،جو اتحاد کے مشترکہ امیدوار ہیں اور محبوبہ مفتی کے بھائی تصدق مفتی کے مد مقابل میدان میں ہیں،نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات کی اور کہا”ہم لوگوں سے آرایس ایس کو ریاست سے باہر رکھنے کے لئے ووٹ مانگیں گے تاکہ ریاست میں امن اور بھائی چارہ بنا رہے“۔یاد رہے کہ 2014کے اسمبلی انتخابات کے دوران مفتی سعید نے اسی ایجنڈا پر لوگوں سے بھاری منڈیٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی تاہم بعدازاں انہوں نے خود بی جے پی کے ساتھ مل کر ہی سرکار بنائی۔مفتی سعید نے لوگوں میں یہ ڈر بٹھادیا تھا کہ چونکہ بی جے پی کی للچائی ہوئی نظریں اس مسلم اکثریت والی ریاست پر ہیں لہٰذا اسے ہرایا نہ گیا تو پھر لوگوں کو سنگھیوں کے پنجوں تلے پھنسنے سے کوئی نہیں بچاسکتا ہے۔
علیٰحدگی پسندوں کی بائیکاٹ کال کے باوجود بھی بھاری ووٹنگ ہوئی تھی اور پی ڈی پی کو 87رکنی اسمبلی میں 28سیٹیں حاصل ہوگئی تھیں جبکہ پارٹی نے دیگر کئی سیٹوں پر معمولی فرق سے انتخاب ہارا تھا۔ابھی پی ڈی پی اور بی جے پی کا اتحاد ہے اور بھاجپا کے لیڈر پی ڈٰ پی کے لئے تشہیری مہم چلا رہے ہیں۔مخالف اتحاد نے الزام لگایا ہے کہ پی ڈی پی خود اپنے ہی ایجنڈا کے خلاف جاکر لوگوں سے دھوکہ کر چکی ہے اور اسی کی مدد سے بھاجپا اور آر ایس ایس پہلی بار جموں کشمیر میں پیر جمانے لگی ہیں۔

Exit mobile version