سُپریم کورٹ کی جانب سے جموں کشمیر میں پارلیمانی حلقہ جات کی نئی حد بندی کے خلاف دائر عرضیوں کو خارج کئے جانے پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے پی ڈی پی صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ’ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘۔ اُنہوں نے کہا کہ کشمیریوں نے حدبندی کمیشن کی تشکیل کو ہی مسترد کیا ہوا ہے لہٰذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ حد بندی ہوئی۔اُنہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نے انتخابات میں گڑبڑ کرنے کیلئے حد بندی کو اس راستہ بنانے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے جسکے تحت اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا ہے۔
یاد رہے کہ جموں کشمیر کی بیشتر سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کے باوجود بھاجپا کی مرکزی سرکار نے جموں کشمیر میں انتخابی حلقوں کی حد بندی کرائی جسکے تحت اسمبلی اور پارلیمنٹ کے کئی حلقوں میں کانٹ چھانٹھ کی گئی اور مُسلم اکثریت والی وادیٔ کشمیر میں ایک نشست کے مقابلے میں جموں صوبہ میں چھ نشستیں بڑھوائیں اور کئی نشستیں درجہ فہرست ذاتوں کیلئے مختص کرائیں۔مرکزی حکومت نے سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کو خاطر میں نہیں لایا تو سرینگر کے دو اشخاص نے سُپریم کورٹ میں عرضی دائر کی جسے لیکر بعض حلقوں میں بڑی اُمیںدیں تھیں تاہم عدالتِ عُظمیٰ نے پیر یہ عرضی خارج کردی۔عام لوگوں کو عدالت کے فیصلے سے بڑی حد تک مایوسی ہوئی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دفعہ 370سے متعلق عرضیوں کا بھی ایسا ہی حشر ہونے والا ہے۔ بات کرتے ہوئے کئی بزرگوں نے کہا ’’یہ ایک مایوس کُن بات ہے عدالت ایک آخری اُمید ہوتی ہے لیکن جب وہاں سے عرضی ہی خارج ہوئی تو کیا کیجئے‘‘۔ ایک بزرگ نے اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر بتایا ’’مجھے لگتا ہے کہ دفعہ (370) سے متعلق عرضی کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔
یہ ایک مایوس کُن بات ہے عدالت ایک آخری اُمید ہوتی ہے لیکن جب وہاں سے عرضی ہی خارج ہوئی تو کیا کیجئے‘
محبوبہ مفتی نے تاہم عدالتی فیصلے کو زیادہ اہمیت نہ دی یا زیادہ اہمیت نہ دینے کا تاثر دینا چاہا۔جنوبی کشمیر میں اُنکے آبائی قصبہ بجبہاڑہ میں نامہ نگاروں نے محبوبہ مفتی سے اس پیشرفت پر ردِ عمل مانگا تو اُنہوں نے کہا’ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے کیونکہ ہم پہلے ہی حد بندی کمیشن کو سرے سے مسترد کرچکے ہیں‘۔تاہم محبوبہ مفتی نے عدالت کے اس فیصلے پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ جب جموں کشمیر کی تنظیمِ نو اور دفعہ370کی تنسیخ کے خلاف دائر عرضیاں زیرِ التوا ہیں تو اس (حد بندی سے متعلق عرضی) پر فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔حد بندی کو بد نیتی پر مبنی ایک کارروائی قرار دیتے ہوئے اُنہوں نے الزام لگایا کہ یہ انتخابات سے قبل گڑ بڑ کرنے کا راستہ بنانے کے جیسا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ حد بندی کمیشن نے اکثریت کو اقلیت میں اور اقلیت کو اکثریت میں بدلا ہے اور یہ سب انتخابی دھاندلیوں کیلئے کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جموں کشمیر میں ابھی صدر راج ہے اور آٹھ سال ہوئے یہاں انتخابات نہیں ہوئے ہیں۔ حالانکہ درمیان میں کئی بار انتخابات کرائے جانے کی باتیں ہوئی تو ہیں لیکن ابھی تک ایسے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں کہ مستقبلِ قریب میں یہاں انتخابات کرائے جائیں گے۔بلکہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کا الزام ہے کہ بھاجپا سرکار جموں کشمیر میں انتخابات کرانے کے حق میں ہی نہیں ہے اور یوں یہاں کے عوام کا جمہوری حق مارا جا رہا ہے۔ حالانکہ بھاجپا کے کئی لیڈران کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جموں کشمیر میں جلد ہی انتخابات منعقد کرائے جائیں گے تاہم تاریخوں کا اعلان الیکشن کمیشن ہی کر سکتا ہے لیکن عملاََ الیکشن کمیشن سے لیکر بھاجپا کے لیڈروں تک کسی کے منھ سے کوئی حتمی تاریخ سُنی نہیں جاتی ہے۔