ڈیلی ویجروں کو پرمننٹ کرنے کا فیصلہ

جموں کشمیر میں برسوں بلکہ دہائیوں سے مختلف سرکاری محکموں کی عارضی ملازمت کرنے والے اکسٹھ ہزار لوگوں کی قسمت اچھی رہی تو اب کی بار وہ مستقل ہونے جارہے ہیں۔حالانکہ ان بد نصیبوں کو اس سے قبل بارہا اس طرح کی اُمیدیں دلائے جانے کے بعد پھر اُسی ’’استحصال‘‘ سے گذرنا پڑا ہے تاہم اب کی بار مرکزی وزارتِ داخلہ اس معاملے کو ’’مختلف زاویوں‘‘ سے دیکھتے ہوئے اسے ایک ہی بار اور ہمیشہ کیلئے حل کرانے کی ٹھان چکا ہے۔


مارچ کے اواخر تک پیشرفت ہوسکتی ہے تاکہ سرکاری دفاتر کے جموں سے سرینگر منتقل ہونے پر یہاں ملازمین کے احتجاجی مظاہرے نہ ہوں اور سرکار کو بعض نئے ’’قواعدو ضوابط‘‘ کو نافذ کرنے میں کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملے پر مرکزی سرکار کی مختلف وزارتوں نے سوچا ہے اور باالآخر وزارتِ داخلہ نے اقدامات کرنے کا آغاز کرتے ہوئے جموں کشمیر سرکار سے تمام تفاصیل اور ایک طرح کا ’’پروجیکٹ رپورٹ‘‘ طلب کیا ہے۔ان ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارتِ داخلہ نے جموں کشمیر سرکار سے عارضی ملازمین کی تفاصیل،اُنہیں بھرتی کئے جانے کے وقت اپنائے جاچکے طریقہ،تاریخوں ،انکی تعلیمی قابلیت،کام کی نوعیت،انہیں دئے جارہے مشاہرہ ،اُنہیں مستقل کئے جانے کی صورت میں درکار رقومات اور اس طرح کی دیگر سبھی تفاصیل طلب کی ہیں۔

جموں کشمیر میں تعلیم یافتگان کی بے روزگاری کا مسئلہ پُرانا ہے اور ماضی کی مختلف سرکاروں نے اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے وقت وقت پر ’’ڈیلی ویجر،نیڈ بیسڈ (ضرورت پر مبنی)،کیجول لیبر یہاں تک کہ ان پیڈ (یعنی جنہیں ادائیگی نہ کی جاتی ہو) کے جیسے ملازمت کے عارضی زمروں کے تحت ہزاروں لوگوں کو مختلف محکموں میں بھرتی کیا ہوا ہے۔ان زمروں کے تحت کام کر رہے ان لوگوں کی حالت بندھوا مزدوروں کی طرح ہے کیونکہ ایک طرف وہ مستقل ملازمین کے مساوی یا بعض اوقات اُن سے زیادہ کام کرتے ہیں اور دوسری جانب اُنہیں یا تو سرے سے ہی کوئی مشاہرہ نہیں دیا جاتا ہے یا پھر چھ یا سات ہزار روپے ماہانہ کی موعودہ رقم کئی کئی مہینوں یا سالوں بعد فراہم کی جاتی ہے۔

بار بار کی ہڑتالوں ،احتجاجی مظاہروں اور سیاستدانوں کے دفاتر و کوٹھیوں کے طواف کے بعد چند سال قبل چند ہزار عارضی ملازمین کو مستقل تو کیا گیا تھا تاہم سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مختلف محکموں میں اب بھی اکسٹھ ہزار کے لگ بھگ ملازمین عارضی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں۔گو وقت وقت کی سرکاروں یہاں تک کہ سرکار گرنے کے بعد اُسوقت کے گورنر ستیاپال ملک نے بھی ان ملازمین کی انجمنوں سے انکی مستقلی کے کئی وعدے کئے تاہم انہیں ابھی تک وفا نہیں کیا جاسکا ہے۔جیسا کہ محکمہ ایسٹیٹس میں بائیس سال سے ’’ڈیلی ویجر‘‘ کے بطور کام کر رہے شبیر احمد کا کہنا ہے ’’ہماری ساری زندگی انہی جھوٹے وعدوں کی نذر ہوئی،متعدد بار ڈیٹا جمع کیا گیا،فہرستیں بنائی گئیں اور نہ جانے کیا کیا لوازمات پورا کرائے گئے لیکن ملازمت مستقل نہیں ہو سکی‘‘۔

ایک سرکاری افسر نے اُنکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر تاہم کہا کہ اب کی بار ان لوگوں کا مسئلہ حل ہونے کی سب سے زیادہ توقع ہے۔مانا جارہا ہے کہ مرکزی وزارتِ داخلہ اس زاوئے سے بھی سوچ رہی ہے کہ چونکہ دہائیوں بعد دو ایک سال ہوئے وادیٔ کشمیر میں علیٰحدگی پسندانہ مظاہروں کی کوئی لہر نہیں اُٹھی تاہم سرکاری ملازمین کا اپنے مطالبات کو لیکر آئے دنوں سرینگر کے لالچوک میں ریلیاں نکالنا جاری ہے اور ان میں عارضی ملازمین سب سے آگے  رہتے ہیں۔وزارت کا ،ذرائع کے مطابق،ماننا ہے کہ ایسی کوئی صورتحال پیدا ہی نہیں ہونی چاہیئے کہ جسے لیکر آئے دنوں احتجاجی مظاہرے ہوں اور ’’کسی عنصر‘‘ کو صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری ایجنسیوں کیلئے مسئلہ کھڑا کرنے کا موقعہ ملے۔اتنا ہی نہیں بلکہ ذرائع کے مطابق وزارتِ داخلہ ان عارضی ملازمین کو مستقلی کا پروانہ تھما کر اسے ایک بڑے ’’اقدامِ اعتماد سازی‘‘ کے بطور پیش کرسکتی ہے۔


’’ہماری ساری زندگی انہی جھوٹے وعدوں کی نذر ہوئی،متعدد بار ڈیٹا جمع کیا گیا،فہرستیں بنائی گئیں اور نہ جانے کیا کیا لوازمات پورا کرائے گئے لیکن ملازمت مستقل نہیں ہو سکی‘‘۔

قابلِ ذکر ہے کہ جموں کشمیر سرکار نے حال ہی اعلیٰ سطح پر سبھی سرکاری محکموں کی ٹریڈ یونین تنظیموں اور ان سے وابستہ لیڈران کا ایک ڈیٹابیس بنانے کا حکم صادر کیا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ان تنظیموں کی تحقیقات کئے جانے کے علاوہ سرکار ان سے رابطہ کرکے ملازمین کے سبھی جائز مطالبات کو ایک ہی بار حل کرنے کی کوشش کرے گی جس میں عارضی ملازمین کی مستقلی سرِ فہرست ہے۔

اندازہ ہے کہ اس سلسلے میں مارچ کے اواخر تک پیشرفت ہوسکتی ہے تاکہ سرکاری دفاتر کے جموں سے سرینگر منتقل ہونے پر یہاں ملازمین کے احتجاجی مظاہرے نہ ہوں اور سرکار کو بعض نئے ’’قواعدو ضوابط‘‘ کو نافذ کرنے میں کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔قابلِ ذکر ہے کہ 5اگست 2019کو دفعہ 370کی تنسیخ اور سابق ریاست کو دو یونین ٹریٹریز میں بدل دئے جانے کے بعد مرکزی سرکار نے یہاں کے کئی قوانین تبدیل کئے ہیں اور دیگر کئی قوانین کی تبدیلی زیرِ غور بتائی جارہی ہے جن کی امکانی مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے سرکار اپنے ملازمین کا موڈ خوشگوار بنائے رکھنا چاہتی ہے۔(بشکریہ راشٹریہ سہارا)

Exit mobile version