کرنٹ سے جھلسنے والا ڈیلی ویجر تنخواہ سے محروم

جنوبی کشمیر کے کولگام میں محکمۂ بجلی کے ایک ڈیلی ویجر منظور احمد کے کرنٹ لگنے سے شدید زخمی ہونے کے بعد اُنکے ساتھیوں نے اُنکی تنخواہوں کے جلد واگذار کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔شدید برفباری کے دوران اپنی جان پر کھیل کر بجلی سپلائی کی بحالی کو ممکن بناچکے ان لوگوں نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں گذشتہ دو ماہ سے وہ معمولی تنخواہ بھی نہیں دی گئی ہے کہ جسکے لئے وہ بندھوا مزدوروں کی طرح کام کرتے آرہے ہیں۔

منظور احمد نامی ایک ڈیلی ویجر سنیچر کو تب شدید زخمی ہوگئے تھے کہ جب سپلائی لائن کی مرمت کے دوران اُنہیں کرنٹ لگ گیا تھا۔وہ تب ہی سے سرینگر کے میڈیکل انسٹیچیوٹ میں زیرِ علاج ہیں اور خبر ہیں کہ وہ بچ بھی گئے تو اُنکا ہاتھ ہمیشہ کیلئے معذور رہ سکتا ہے۔

اس واقعہ کے کچھ وقت بعد ایکزیکٹیو انجینئر کولگام کے دفتر کے سامنے احتجاج کرنے کیلئے جمع ہوئے درجنوں عارضی ملازمین نے الزام لگایا کہ ایک تو اُنسے بندھوا مزدوروں کی طرح کام لیا جارہا ہے اور اوپر سے وہ معمولی مشاہرہ بھی نہیں دیا جاتا ہے کہ جسکے لئے وہ برسوں سے جان کی بازی لگاتے آرہے ہیں۔ایک احتجاجی ملازم نے کہا ’’ہمیں نہ کوئی باضابطہ تربیت دی جاتی ہے اور نہ کوئی اوزار وغیرہ ہی فراہم کئے جاتے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ وہ معمولی تنخواہ بھی وقت پر نہیں دی جاتی ہے کہ جو ہم سے ہر روز جان کی بازی لگواتی ہے‘‘۔

تنخواہوں کی واگذاری کیلئے احتجاج کرتے ہوئے ڈیلی ویجر ملازمین

افسروں کی جانب سے پریشان کئے جانے کے ڈر سے اُنکا نام لینے کی اجازت دینے پر آمادہ نہ ہوئے ایک اور ملازم نے کہا کہ اُنہیں گذشتہ دو ماہ سے تنخواہ کیلئے ٹرپایا جاتا ہے جسکے لئے وہ ڈویژن کے اکونٹنٹ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔انہوں نے کہا ’’آج جب ہمارا ایک ساتھی موت و حیات کی کشمکش میں ہے ہمیں یقین ہے کہ ہماری ہی طرح اسکے گھر میں اسکے علاج کیلئے کوئی رقم نہیں ہوگی کیونکہ ایک تو ہمیں معمولی تنخواہ ملتی ہے اور دوسرا یہ کہ یہ معمولی رقم بھی وقت پر نہیں ملتی‘‘۔احتجاجی ملازمین کا شکوہ ہے کہ حالیہ برفباری میں عوام اور افسروں کی جانب سے تعریفیں ملنے پر انہیں لگا تھا کہ اُنکی مستقلی کے اقدامات کئے جائیں گے لیکن مستقلی تو دور اُنکی مزدوری بھی نہیں دی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ امسال بھاری برفباری ہونے کے باوجود بھی محکمۂ بجلی نے بجلی سپلائی کو بہت زیادہ متاثر نہیں ہونے دیا اور اس کام میں محکمۂ کے عارضی ملازمین کی بڑی حصہ داری کا اعتراف کیا جاچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

Exit mobile version