بھارت کے سابق صدر پرنب مکھرجی کو فوت ہوئے پانچ مہینے ہوئے ہیں تاہم کشمیر کے بعض ’’صحافیوں‘‘ کیلئے وہ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اُنکے لئے باضابطہ بیانات بھی جاری کرتے ہیں۔
کنٹرول سی (کاپی)سے شروع ہوکر کنٹرول پی (پیسٹ) پر ختم ہونے والے ’’صحافیوں‘‘ کے مطابق پرنب مکھرجی نے ایک بھارت رتن کا ایوارڈ لینے کی تقریب پر تقریر کرتے ہوئے گذشتہ 70سال کے دوران ملک کو درپیش رہیں مشکلات اور اسکی حصولیابیوں کا تذکرہ کیا اور ساتھ ہی پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش بھی ظاہر کی۔
محکمۂ اطلاعات کی جانب سے اخبارات سے متعلق ایک خفیہ آپریشن کے متعلق لکھا تھا جس میں ہوئے کئی سنسنی خیز انکشافات میں ایک یہ بھی ہے کہ بیشتر اخبارات اپنی جانب سے کچھ لکھنے کی بجائے انٹرنیٹ سے مواد چُرا کر شائع کرتے ہیں۔
سرینگر سے شائع ہونے والے ’’گھڑیال‘‘ اور ’’انڈین ٹائمز‘‘ نامی اخبارات نے یہ خبر آج 27 جنوری کے شمارے میں شائع کی ہے جب مکھرجی کو فوت ہوئے 129دن گذر چکے ہیں۔’’خبر‘‘ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے یہ کسی ’’کرنٹ نیوز آف انڈیا‘‘ نامی ایجنسی کی رپورٹنگ پر مبنی ہے۔ظاہر ہے کہ نام نہاد ’’کرنٹ‘‘ نیوز نے یہ خبر انٹرنیٹ پر کہیں سے کاپی کی ہے اور گھڑیال نے اسے اپنے نام سے شائع کیا ہے۔ سرینگر سے اس طرح کے بے شمار ’’اخبار‘‘ نکلتے ہیں کہ جو عام قارئین کی نظروں سے تو نہیں گذرتے ہیں تاہم بعض اوقات فیس بُک یا وٹس ایپ کے ذرئعہ لوگ انکی زیارت سے فیض یاب ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص نے تفصیلات کو بتایا ’’جناب کیا پرنب مکھرجی ابھی زندہ ہیں،میرے خیال میں وہ فوت ہوچکے تاہم فیس بُک پر انڈین ٹائمز نام کے ایک اخبار کی خبر میں دیکھا کہ اُنہوں نے کوئی بیان دیا ہے‘‘۔
پرنب مکھرجی ایک لمبی سیاسی باری کھیلتے رہنے کے بعد 2012سے 2017 تک بھارت کے (تیرہویں) صدر رہے۔11دسمبر 1935کو جنمے مکھرجی 31اگست2020کو 85سال کی عمر میں تب فوت ہوگئے کہ جب دنیا کو کووِڈ19-کی وباٗ نے بُری طرح گھیرا ہوا تھا۔ایک اہم شخصیت ہونے کی وجہ سے اُنکی موت کی خبر بھارت میں ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک میں بھی شہ سُرخیوں میں رہی تاہم بعض ’’صحافی‘‘ اس حد تک مصروف رہے کہ انہیں اس خبر کی بھنک تک نہ لگی۔یا پھر جیسا کہ ایک ناقد نے مزاحیہ انداز میں کہا ’’کیا پتہ پرنب دا ان لوگوں کے خواب میں آئے ہوں یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں (نام نہاد صحافیوں کو) دادا (جیسا کہ انکے محبین انہیں پکارتے تھے) سے اتنی محبت رہی ہو کہ وہ انکی موت کا یقین نہیں کرسکتے ہوں‘‘۔
تاہم بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر سے شائع ہونے والے بیشتر اخبارات انٹرنیٹ سے مواد کاپی کرکے اپنے نام سے ’’شائع‘‘ کرتے ہیں۔ان لوگوں کا کہنا ہے صحافت کو ’’کاپی‘‘ اور ’’پیسٹ‘‘ کے درمیان دوڑ ماننے والے ’’صحافی حضرات‘‘ یہ تک دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ نقل کرتے ہیں وہ حقیقت پر مبنی بھی ہے یا نہیں یا پھر نقل کی جا رہی خبر ’’باسی‘‘ تو نہیں ہوگئی ہے۔
’’گھڑیال‘‘ نامی اخبار نے یہ خبر آج 27 جنوری کے شمارے میں شائع کی ہے جب مکھرجی کو فوت ہوئے 129دن گذر چکے ہیں۔
تفصیلات نے حال ہی محکمۂ اطلاعات کی جانب سے اخبارات سے متعلق ایک خفیہ آپریشن کے متعلق لکھا تھا جس میں ہوئے کئی سنسنی خیز انکشافات میں ایک یہ بھی ہے کہ بیشتر اخبارات اپنی جانب سے کچھ لکھنے کی بجائے انٹرنیٹ سے مواد چُرا کر شائع کرتے ہیں۔محکمۂ کی جانب سے جمع کردہ تفصیلات کے مطابق اس طرح کے اخبارات سرکار سے اشتہارات کے عوض ماہانہ لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں جبکہ وہ چند ایک کاپیاں ہی چھاپتے ہیں جو مارکٹ میں تقسیم کئے جانے کی بجائے ایک تو محکمۂ اطلاعات میں حاضری کیلئے جمع کرائی جاتی ہیں اور دوسرا کہیں کہیں ’’تبرکاََ‘‘ پہنچائی جاتی ہیں۔
محکمۂ اطلاعات میں ذرائع نے بتایا کہ یہاں اخبارات کے مواد کو جانچنے کا کوئی باضابطہ نظام تو نہیں ہے لیکن حال ہی میں کرائی گئی ایک تحقیق سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بیشتر اخبارات کاپی رائٹ کے برخلاف مواد چُراکر چھاپتے ہیں اور بعض اوقات غلط اطلاعات تک شائع کی جاتی ہیں۔