جموں کشمیر میں ایک اہم سیاسی واقعہ کے تحت محبوبہ مفتی اور فاروق عبداللہ کی مشترکہ قیادت میں قائم ’’جموں کشمیر الائنس فار گُپکار ڈیکلریشن‘‘ (جے کے پی اے جی ڈی) نامی سیاسی اتحاد میں دراڑ پیدا ہوگئی ہے۔کسی زمانے میں علیٰحدگی پسند رہے سجاد لون کی پیوپلز کانفرنس نے ،دفعہ 370کی تنسیخ اور 5اگست2019کی مرکزی سرکار کی مہم جوئی کے تحت لئے گئے دیگر فیصلوں کو منسوخ کرانے کیلئے بنائے گئے،سیاسی اتحاد سے علیٰحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ حالانکہ سجاد لون کی پیوپلز کانفرنس بنیادی طور انکے آبائی علاقہ ہندوارہ تک محدود ہے تاہم محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی اور فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس،کے اس سیاسی اتحاد میں انہیں ’’اہم حیثیت‘‘ حاصل تھی جبکہ وہ اس اتحاد کے ترجمان تھے۔
’’یہ اتحاد قربانیوں کا متقاضی تھا،ساتھی اتحادیوں کیلئے جگہ بنانے کیلئے ہر پارٹی کو زمینی سطح پر قربانی دینا تھی لیکن (اتحاد میں شامل) کوئی بھی پارٹی جگہ چھوڑنے اور قربانی دینے پر آمادہ نہیں ہے ۔ہم نے 5اگست کو موجدین کے خلاف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف (ضلع ترقیاتی کونسل کا انتخاب) لڑا‘‘۔
سجاد لون کے جے کے پی اے جی ڈی چھوڑ کر جانے کی افواہیں کئی دنوں سے گشت میں تھیں تاہم آج انہوں نے اسکا باضابطہ اعلان کیا۔انہوں نے تاہم اس اتحاد کے ’’بنیادی اصولوں پر کاربند‘‘ رہنے اور اس میں شامل پارٹیوں کی حمایت کرنے کی بات کی ہے۔سیاسی اتحاد سے باہر جانے کے حوالے سے لکھے گئے خط میں سجاد لون نے کہا ہے کہ اس ’’اتحاد کا جذبہ‘‘ زمینی سطح پر نظر نہیں آرہا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے ’’یہ اتحاد قربانیوں کا متقاضی تھا،ساتھی اتحادیوں کیلئے جگہ بنانے کیلئے ہر پارٹی کو زمینی سطح پر قربانی دینا تھی لیکن (اتحاد میں شامل) کوئی بھی پارٹی جگہ چھوڑنے اور قربانی دینے پر آمادہ نہیں ہے ۔ہم نے 5اگست کو موجدین کے خلاف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف (ضلع ترقیاتی کونسل کا انتخاب) لڑا‘‘۔واضح رہے کہ مذکورہ سیاسی اتحاد نے ضلع ترقیاتی کونسل کے حالیہ انتخابات مشترکہ طور لڑنے کا فیصلہ لیا تھا اور اس سلسلے میں نشستوں کی تقسیم کاری کا ایک فارمولہ بھی طے پایا تھا تاہم زمینی سطح پر کئی حلقہ ہائے انتخاب میں اتحادی پارٹیوں کو ایک دوسرے سے دست گریباں پایا گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف ووٹ ڈالا۔سجاد لون کا کہنا ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود انکے لئے مشکل ہے کہ وہ ایسا ظاہر کرتے رہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
سجاد لون نے کہا ہے کہ مرمت کے امکان سے زیادہ نقصان ہو چکا ہے اور وہ مذکورہ اتحاد میں واپس نہیں جائیں گے لیکن جن اصولوں اور مقاصد سے یہ اتحاد بنایا گیا تھا وہ انکے ساتھ وابستہ رہیں گے۔انہوں نے اتحاد میں باقی بچی پارٹیوں کو ان مقاصد کیلئے حمائت دیتے رہنے کا بھی ’’یقین‘‘ دلایا ہے۔
قرانِ شریف پر ہاتھ رکھ کر بزرگ لیڈر کے ’’الزام‘‘ کو مسترد کردیا تھا تاہم بعدازاں وہ نہ صرف انتخابی سیاست میں آئے بلکہ انہوں نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے خود کو وزیرِ اعظم مودی کا چھوٹا بھائی بتایا۔
حُریت کانفرنس کے مقتول لیڈر عبدالغنی لون کے دوسرے فرزند سجاد لون اپنے والد کے قتل کے بعد اُنکی جگہ بیٹھے تھے تاہم حُریت کے بزرگ لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے اُن پر درپردہ انتخابات میں شرکت کیلئے پر تولنے کا الزام لگایا جبکہ خود حُریت انتخابات کا بائیکاٹ کرتی آرہی تھی۔سجاد لون نے ایک پریس کانفرنس کے دوران قرانِ شریف پر ہاتھ رکھ کر بزرگ لیڈر کے ’’الزام‘‘ کو مسترد کردیا تھا تاہم بعدازاں وہ نہ صرف انتخابی سیاست میں آئے بلکہ انہوں نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے خود کو وزیرِ اعظم مودی کا چھوٹا بھائی بتایا۔عرصہ تک وہ بھاجپا کے اس حد تک قریب رہے کہ پارٹی نے انہیں وزیر بنوایا اور بعض حلقے یہ تک قیاس کرتے رہے کہ لون کو وزیرِ اعلیٰ بنایا جائے گا۔5اگست کی مہم جوئی سے قبل تاہم دیگر کئی سیاسی لیڈروں کے ساتھ ساتھ سجاد کو بھی حراست میں لیا گیا ۔بعض حلقے انکے ایک بار پھر بھاجپا کا اتحادی بننے کے امکانات کو رد نہیں کرتے ہیں۔
جے کے پی اے جے ڈی کی جانب سے دیر تک کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آٰیا تھا۔اتحاد میں شامل ایک لیڈر نے بتایا کہ انہیں ابھی میڈٰا کے ذرئعہ ہی سجاد کے چلے جانے کا علم ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ انکا خط مل گیا ہو تو اس پر بات کرنے کے بعد ہی کوئی باضابطہ ردِ عمل ظاہر کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھئیں