لاوے پورہ اینکاونٹر:ثبوت جمع کئے جارہے ہیں

لاوے پورہ سرینگر میں ایک ’’متنازعہ اینکاونٹر‘‘ میں تین نوجوانوں کے مارے جانے کے بیس دن بعد جموں کشمیر پولس نے باالآخر تینوں لڑکوں کے خلاف ’’ٹھوس ثبوت‘‘دینے کا مطالبہ مان لیا ہے۔پولس نے تاہم ’ثبوت‘‘ فراہم کرنے کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی ہے البتہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مارے جاچکے لڑکے ’’جنگجو‘‘ ہی تھے۔
جموں کشمیر پولس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کشمیر وجے کمار نے آج یہاں ’’سڑک حفاظت ہفتہ‘‘ کی افتتاحی تقریب کے دوران نامہ نگاروں کی جانب سے سوالات کے جواب میں کئی معاملوں پر بات کی۔انہوں نے کہا کہ لاوے پورہ اینکاونٹر میں مارے جانے والے لڑکے جنگجو تھے اور اس حوالے سے انکے خاندانوں کو جلد ہی ’’ٹھوس ثبوت‘‘ دیکر انسے یہ بات منوائے گی۔انہوں نے کہا ’’ہم نے سٹھ فی صد ثبوت جمع کرلیا ہے اور آںے والے دنوں میں ہم مزید ثبوت،مع تکنیکی (شہادت کے)،جمع کرنے کے بعد مارے گئے نوجوانوں کے خاندانوں سے یہ منوائیں گے کہ انکے بیٹے جنگجوئیت میں ملوث تھے اور جنگجوؤں کو لاجسٹِک سپورٹ فراہم کرتے تھے‘‘۔

لاوے پورہ اینکاونٹر میں مارے جاچکے تینوں لڑکوں کے لواحقین نے کئی بار پلوامہ سے لیکر سرینگر تک احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے واقعہ کی غیر جانبدار تحقیقات کرائے جانے اور انہیں لاشیں،جنہیں پولس نے اپنے طور شمالی کشمیر کے ایک جنگل میں دفنایا ہے، واپس کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے

سرینگر کے لاوے پورہ میں فوج نے 29 دسمبر کی رات کو ایک مکان کو گھیرے میں لیکر اس میں جنگجوؤں کی موجودگی کا دعویٰ کیا تھا اور پھر شدید گولہ باری کے بعد اگلے روز مکان سے تین ’’جنگجوؤں‘‘ کی لاشیں برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔فوج کی اس دعویداری کے کچھ ہی منٹوں کے بعد جنوبی کشمیر کے پلوامہ اور شوپیاں اضلاع کے تین خاندانوں نے دعویٰ کیا کہ جنگجو بتاکر مارے گئے تینوں لڑکے عام طالبانِ علم ہیں اور وہ اینکاونٹر شروع ہونے سے محض چند گھنٹے قبل تک اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ تینوں کم عمر لڑکے مختلف تعلیمی ضروریات کی خاطر گھر سے نکل کر اچانک غائب ہوئے اور انہیں شک ہے کہ ان تینوں کو کہیں سے اٹھاکر لاوے پورہ میں ختم کیا گیا۔
دلچسپ ہے کہ یہ واقعہ اسی طرح کے ایک اور واقعہ کا بھانڈا پھوٹ جانے کے محض دو ایک دن بعد پیش آیا۔یاد رہے کہ جنوبی کشمیر کے امشی پورہ شوپیاں میں فوج نے ایسے ہی ایک اینکاونٹر میں تین ’’خونخوار دہشت گردوں‘‘کے مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا تاہم لاوے پورہ اینکاونٹر سے محض دو ایک دن قبل پولس نے اعتراف کیا کہ مذخورہ اینکوانٹر فرضی تھا اور اس میں مارے جانے والے کوئی خونخوار دہشت گرد نہیں بلکہ راجوری کے تین دیہاڑی مزدور تھے جو کام کی تلاش میں شوپیاں آئے ہوئے تھے۔
لاوے پورہ اینکاونٹر میں مارے جاچکے تینوں لڑکوں کے لواحقین نے کئی بار پلوامہ سے لیکر سرینگر تک احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے واقعہ کی غیر جانبدار تحقیقات کرائے جانے اور انہیں لاشیں،جنہیں پولس نے اپنے طور شمالی کشمیر کے ایک جنگل میں دفنایا ہے، واپس کئے جانے کا مطالبہ کیا ہے ۔تینوں میں سے سب سے کم عمر اطہر،جو والدین کی اکلوتی اولاد تھے،کے والد مشتاق احمد کے کئی ویڈیوز وائرل ہیں کہ جن میں وہ واقعہ کی تحقیقات کرائے جانے کے علاوہ اپنے بچے کی لاش مانگتے دیکھے جاسکتے ہیں۔

سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے جنگجوؤں اور عام لوگوں کے جنازے میں ہزاروں اور بعض اوقات لاکھوں لوگوں کی شرکت سرکاری ایجنسیوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن گئی تھی۔ان ایجنسیوں نے تاہم کووِڈ19-کی آڑ میں فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے جنگجوؤں کو اپنے طور دور جنگلوں میں دبا دینے کی روایت شروع کی

آئی جی کشمیر نے تاہم لاشیں واپس کرنے کے کسی بھی امکان کر رد کرتے ہوئے کہا ’’اگر ہم لاشیں واپس کرینگے،لوگ جنازے کیلئے جمع ہوجائیں گے اور کووِڈ19- پروٹوکول توڑیں گے جس سے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑیں گی‘‘۔
قابلِ ذکر ہے کہ سرکاری فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے جنگجوؤں اور عام لوگوں کے جنازے میں ہزاروں اور بعض اوقات لاکھوں لوگوں کی شرکت سرکاری ایجنسیوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ بن گئی تھی۔ان ایجنسیوں نے تاہم کووِڈ19-کی آڑ میں فورسز کے ہاتھوں مارے جانے والے جنگجوؤں کو اپنے طور دور جنگلوں میں دبا دینے کی روایت شروع کی اور یوں لاوے پورہ میں مارے گئے لڑکوں کو بھی اپنے گھروں سے دور جنگلوں میں در گور کیا گیا۔

Exit mobile version