اب جبکہ کرونا وائرس سے بچاو کے اقدام کے بطور جاری تالہ بندی کے فوری طور ہٹالئے جانےکے امکانات معدوم ہوگئے ہیں بعض نجی اسکولوں نے طلبأ کو آن لائن پڑھانے کا انتظام کیا ہے تاہم بیشتر اسکول یا تو خاموش ہیں یا پھر انہوں نے آن لائن کلاسز کے نام پر مذاق شروع کیا ہے۔سرینگر کے ایک نامی نجی اسکول نے بچوں کے والدین کے موبائل فون پر ایس ایم ایس بھیج کر بچوں کو وٹس اپ گروپ میں شامل ہوکر ’’آن لائن‘‘کلاس لینے کی ہدایت دی ہے اور اس اقدام کو مذکورہ اسکول کی جانب سے ’’بچوں کو آن لائن پڑھانےکا انتظام‘‘قرار دیا جارہا ہے۔حالانکہ وٹس اپ کے ذرئعہ صوتی پیغامات بھیجے جارہے ہیں اور یہ بیشتر یکطرفہ ہے یعنی بچوں کیلئے سوال پوچھنے کا کوئی موقعہ نہیں ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک اور علاقوں کے ساتھ ساتھ وادیٔ کشمیر میں بھی تالہ بندی ہے اور اسکولی بچے اب قریب ایک ماہ سے بند ہیں۔سرکاری انتظامیہ کی جانب سے تالہ بندی کا اعلان کئے جانے کے وقت آن لائن کلاسز کے حوالے سے کوئی پیشگی انتظام کیا گیا تھا اور نہ ہی اس سمت میں کوئی سوچ و بچار کیا گیا تھا تاہم اب جبکہ تالہ بندی کے آگے بڑھائے جانے کے امکانات دیکھے جارہے ہیں بعض نجی اسکولوں نے آن لائن کلاسز کی شروعات کی ہے۔اول درجہ کے چند اسکولوں کی دیکھا دیکھی دیگر کئی نجی اسکولوں نے بھی آن لائن کلاسز کی شروعات کا اعلان کرکے گھروں میں قید طلبأ کو ایک خوشخبری سنائی تو ہے تاہم اسکے لئے جو ’’انتظام‘‘کیا گیا ہے اسے اس مذاق سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔
وٹس اپ کے ذرئعہ صوتی پیغامات بھیجے جارہے ہیں اور یہ بیشتر یکطرفہ ہے یعنی بچوں کیلئے سوال پوچھنے کا کوئی موقعہ نہیں ہے
گوگجی باغ علاقہ میں واقعہ ایک نامی اسکول کے طلبأ اور انکے والدین نے کہا کہ اسکول کی جانب سے مختلف وٹس اپ گروپ بنائے گئے ہیں جہاں بچوں کو مختلف مضامین کے اسباق سے متعلق صوتی پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔تاہم طلبأ کا کہنا ہے کہ ایسے میں انکا کوئی فائدہ نہیں ہو پارہا ہے۔ چھٹی جماعت کے ایک طالبِ علم نے فون پر کہا’’گروپ میں شامل بچے سبق کے متعلق سوال نہیں پوچھ پارہے ہیں کیونکہ ایک طرف ٹیچر سبق سناتھی ہیں اور دوسری جانب درجنوں بچے ایک ساتھ مسیج لکھتے رہتے ہیں اور ایسے میں کوئی کچھ نہیں سمجھ پارہا ہے‘‘۔طلبأ کے والدین کا کہنا ہے کہ سرکار کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے آن لائن کلاسز کے حوالےسے قواعدوضوابط جاری کرنے چاہیئں۔ان والدین کا کہنا ہے کہ سرکار کو آن لائن تعلیم کے معتبر ذرائع کے استعمال کو لازمی قرار دیتے ہوئے نجی اسکولوں کو ضابطے کے تحت کرنا چاہیئے۔
دلچسپ ہے کہ انٹرنیٹ پر ایسے کئی سوفٹ وئیر موجود ہیں کہ جنکے ذرئعہ طلبأ کو موثر طریقے سے گھر بیٹھے پڑھایا جاسکتا ہے اور یہ نظام نہ صرف بنیادی تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بھی کئی ممالک میں رائج ہے۔حالانکہ وادیٔ کشمیر میں تیز رفتار انٹرنیٹ کے ممنوعہ ہونے کی وجہ سے اس طریقہ تعلیم میں کئی مسائل درپیش ہیں تاہم ایک مقامی سوفٹ وئیر کمپنی ایکموسوفٹ نے حال ہی میں ایک ایسا سوفٹ وئیر تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا کہ جس سے سُسٹ رفتار انٹرنیٹ کے ذرئعہ بھی طلباٗ کو موثر طریقے سے گھر بیٹھے پڑھایا جاسکتا ہے۔کمپنی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے محکمہ تعلیم کو اپنی خدمات پیش کی تھیں تاہم انہیں کوئی مثبت جواب نہ ملا۔کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر انجینئر داؤد وانی نے بتایا’’ہم نے یہ پروڈکٹ بنایا ہی اسی لئے تھا کیونکہ ہمارے یہاں کسی نہ کسی وجہ سے اکثر اسکول بند ہوجاتے ہیں اور طلبأ کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے لیکن ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے یہاں وقت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ چند ایک اسکولوں کے علاوہ ابھی تک کسی نے اس پروڈکٹ میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی ہے حالانکہ یہ کوئی مہنگا پروڈکٹ بھی نہیں ہے۔
نجی اسکولوں میں درج کئی بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ اسکول بھاری فیس وصول کرتے آرہے ہیں تاہم وہ خرچ کرنے میں ہمیشہ سے کنجوسی کرتے آئے ہیں۔جیسا کہ محمد سلیم نامی ایک بنکر نے کہا’’معاملہ ان اسکولوں میں اساتذہ کی قلیل تنخواہوں کا ہو یا پھر بچوں کیلئے دستیاب سہولیات کا ،پرائویٹ اسکول انتہائی تنگ دل اور تنگ ذۃن ثابت ہوتے آئے ہیں اور آج بھی یہی وجہ ہے کہ آن لائن تعلیم کا کوئی معتبر انتظام کرنے کی بجائے ایس ایم ایس اور وٹس اپ جیسی ایپلی کیشنز کا استعمال کرکے بچوں کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے‘‘۔مختار احمد نامی ایک اور شکایت کُنندہ نے کہا’’ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی ہم فریاد لیکر کہیں جابھی نہیں سکتے ہیں،بچوں کا وقت ضائع ہورہا ہے حالانکہ اگر سرکار دلچسپی لے تو آن لائن طریقہ تعلیم سے بچوں کے نقصان کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے‘‘۔