تبلیغی جماعت کے ایک اہم راہنما اور معروف داعی کا آج صبح سرینگر کے چسٹ ڈزیز اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ وہ وادی میں کرونا سے متاثر دوسرے مریض تھے اور دنیا بھر میں تباہی مچاتی آرہی اس وبا سے ریاست میں مرنے والے پہلے شخص ہیں۔
خوبرو اور نیک صفت بتائے جاہے محمد اشرف دو ایک روز سے موضوعِ بحث ہیں کہ جب ان میں کرونا وائرس کی موجودگی کا پتہ چلا ہے اور پھر یہ سنسنی خیز انکشاف بھی ہوا کہ انکی وجہ سے طبی عملہ کے کئی ارکان سمیت کئی لوگ متاثر ہوچکے ہیں۔
مرحوم کو قریب سے جانتا ہوں انتہائی نیک اور پاکیزہ صفات کے مالک تھے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دعوت تبلیغ میں گزارا
یہ بزرگ کون تھے اور کیا کرتے تھے ،یہ جاننے کیلئے تھوڑی ہی کوشش کرنے پر ایک عظیم شخصیت کا تصور ابھرتا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وہ سوپور کے ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک اللہ والے تھے کہ جو سوپور کے علاوہ سرینگر کے پوش حیدرپورہ کے رہائشی تھے۔
نوجوان عالمِ دین اور تفصیلات کے مستقل مضمون نگار الطاف جمیل ندوی نے ان صاحب کو قریب جاننے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک تحریری نوٹ میں بتایا ”آج صبح ہی صبح یہ خبر آئی کہ قصبہ سوپور کے مشہور داعی حاجی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ موت کی وجہ کرؤنا وائرس کی تکلیف کو قرار دیا گیا یہ جانکاہ خبر ایک بجلی کی طرح ان غریبوں پر بھی گری جنہیں مرحوم اپنی کفالت میں رکھے ہوئے تھے میں ۔ مرحوم کو قریب سے جانتا ہوں انتہائی نیک اور پاکیزہ صفات کے مالک تھے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دعوت تبلیغ میں گزارا۔ انکا زیادہ تر وقت مساجد میں ہی صرف ہوتا تھا یہاں تک کہ دو مساجد ایسی ہیں جو نہ صرف انہوں نے اپنی زمین پر بنائیں بلکہ ان کا خرچہ بھی برداشت کیا“۔
انکا زیادہ تر وقت مساجد میں ہی صرف ہوتا تھا یہاں تک کہ دو مساجد ایسی ہیں جو نہ صرف انہوں نے اپنی زمین پر بنائیں بلکہ ان کا خرچہ بھی برداشت کیا
الطاف جمیل ندوی کا کہنا ہے ”مرحوم جہاں خود کو ذکر و اذکار مجالس اسلامی دعوت تبلیغ کے لئے وقف کئے ہوئے تھے وہیں یہ اپنے علاقہ کے مشہور و معروف تاجر بھی تھے۔ علاقہ کے ایک نامی دولت مند ہونے کے باوجود رب کے ساتھ کچھ اس طرح سے محبت کرتے تھے کہ اپنی کوئی فکر نہ رہتی تھی۔وہ اپنے لبوں پر مسکان لئے ہر ایرے غیرے کی مدد لئے ہمہ وقت تیار رہتے تھے اور انا کی کبھی ان میں ہلکی سی رمق بھی نہ دیکھی گئی“۔
اپنے ایک استاد اور حاجی صاحب کے ساتھی کے ساتھ انم کے بارے میں ہوئی بات چیت کے بارے میں الطاف جمیل نے لکھا ہے ”میرے استاد مکرم مفتی بشیر احمد بٹ صاحب (استاد دارلعلوم سوپور ) کہتے ہیں کہ محمد اشرف پاکیزہ اخلاق ،صالح مزاج اور پرہیز گار شخصیت کے مالک تھے جو ایک بہت بڑے تاجر ہونے کے باوجود سادگی و شرافت کا مجسمہ تھے“۔ مولانا بشیر کہتے ہیں ”حاجی صاحب کی زندگی کا بیشتر حصہ مساجد میں گزرتا تھا جیسے کہ مساجد ہی ان کا گھر ہوں“۔ استاد دار العلوم کہتے ہیں ”
اب جبکہ ان کی موت وبا کے سبب ہوئی تو یاد رکھیں احادیث میں اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ وبا کے دوران موت کا شکار ہونے والا اللہ کے ہاں شہادت کا درجہ پاتا ہے
ہاں غلطیاں کس سے نہیں ہوتی ہیں ،ان سے بھی ہوئی ہوں گی ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ بھی وبائی امرض کا شکار ہوئے ہیں اور ان کی شہادت بھی ہوئی ہے ۔
شاید موت کے وقت ان کے وہ آنسو ان کے کام آجائیں جو کل شام انہوں نے ایک ساتھی کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے بہائے اور اپنی طرف سے یہی کہا کہ مجھے مسجد زکریا سوپور کے پاس ہی دفن کردینا“۔ واضح رہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں انہوں نے زبردست محنت کی ہے۔
یہ جانکاہ خبر ایک بجلی کی طرح ان غریبوں پر بھی گری جنہیں مرحوم اپنی کفالت میں رکھے ہوئے تھے میں
معلوم ہوا ہے کہ حاجی صاحب نے مولانا بشیر احمد مہتمم دار العلوم کو انکا جنازہ پڑھانے کی وصیت کی ہے۔ انکی موت سے نہ صرف سوپور اور سرینگر بلکہ یہ پورا خطہ ایک عظیم داعی سے محروم ہوگیا ہے۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حاجی 7 مارچ کو ایک تبلیغی دورے کیلئے روانہ ہونے کے بعد دلی،دیوبند اور سانبہ سے ہوتے ہوئے واپس واردِ کشمیر ہوئے تھے اور اسکے بعد بھی یہاں سرگرم رہے یہاں تک کہ ان میں کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہوگئیں اور انہیں اسپتال میں بھرتی کیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ حاجی صاحب کی وجہ سے طبی عملہ کے 13 ارکان ، جن میں 2 ڈاکٹر صاحبان بھی شامل ہیں، اور تبلیغی جماعت سے وابستہ کئی عام لوگ کرونا سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان سبھی کو قرنطینیہ میں بھیجا جاچکا ہے جبکہ حاجی صاحب نے جمعرات کی صبح سرینگر کے چسٹ ڈزیز اسپتال،جسے کرونا کے مریضوں کیلئے مختص کیا جاچکا ہے، میں آخری سانس لی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ ذیابطیس، بلند فشارِ خون اور موٹاپا کے امراض کا شکار تھے،بہترین علاج کے باوجود بھی وہ جانبر نہیں ہوسکے۔