بے پرواہ دیہی عوام،کھیتی بھی کرتے ہیں اور چوپال بھی سجاتے ہیں

اب جبکہ سرکار نے لوگوں کو کرونا سے متاثر ہونے سے بچانے کی ایک تدبیر کے بطور تقریباََ سبھی شہروں اور قصبہ جات کو عملاََ تالہ بند کرکے لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے پر آمادہ کیا ہے،دیہی علاقوں میں کرونا کی وبا کے خطرے کو بڑی حد تک نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لگ بھگ وادی کے سبھی دیہات میں لوگ معمول کے کام میں مشغول ہیں اور سماجی فاصلے (سوشل ڈِسٹینسنگ) کا کوئی تصور بھی نہیں ہے ۔یی غفلت ایک دھماکہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے کہ جس کی زد میں آکر احتیاط کرنے والے بھی آسکتے ہیں۔

حالانکہ ہم نے لاوڈ اسپیکر کے ذرئعہ منادی بھی کرائی ہے کہ لوگ گھروں میں رہیں،ہم مزید کوشش کریں گے لیکن جب تک لوگ خود اپنی فکر نہیں کریں گے ہماری کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں

تفصیلات کی ایک ٹیم نے گذشتہ روز جنوبی کشمیر کے اونتی پورہ، ترال اور اس جانب کے دیگر کئی علاقوں کا دورہ کرکے حالات کا جائزہ لیا تو احتیاطی تدابیر کے حوالے سے منظر نامہ مایوس کن معلوم ہورہا تھا۔ ترال جاتے ہوئے نودل کے قریب سی آر پی ایف اور جموں کشمیر پولس کی ایک مشترکہ ٹکڑی گاڑیوں کو روک کر مسافروں سے خصوصی طور یہ پوچھ رہی تھی کہ کہیں وہ ہوائی اڈے سے تو نہیں آئے ہیں یا کہیں بیرونِ جموں کشمیر سے ہوکر تو نہیں آئے ہیں۔ کئی لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر اس بات کو یقینی بنائے جانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ وائرس سے متاثر کوئی شخص علاقے میں داخل نہ ہونے پائے۔ اس ٹکڑی میں شامل اہلکار اور افسران مسافروں کو یہ نصیحت بھی دے رہے تھے ”آپ جاگروت تو ہیں نا، آپ کو معلوم تو ہے نا کہ وائرس پھیلا ہوا ہے اور احتیاط لازمی ہے“۔

میں خود اندر بیٹھا ہوں، ہو سکتا ہے کہ آپکو خوشبو آرہی ہو میں اندر بیٹھے کافی پی رہا ہوں (اشرف حماد)

نودل ترال کی یہ واحد جگہ تھی کہ جہاں پہنچ کر اس وسیع علاقے میں کرونا وائرس سے بچاو کی تدابیر کا احساس ہو رہا تھا تاہم علاقے کے کئی دیہات گھومنے پر لگا کر لوگ بڑی حد تک بے پرواہ ہیں۔ کئی مقامات پر لوگوں کو سیب کے پیڑوں کی دوا پاشی کرتے اور کہیں کسی کو تعمیراتی مواد ڈھوتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا جبکہ نوجوانوں کی کئی ٹولیاں کھیتوں یا سڑکوں، جن پر ٹریفک کی نقل و حمل نہ ہونے کے برابر دیکھی جا سکتی تھی، پر گپیں ہانکنے میں مشغول تھیں۔
ترال کے آری پل گاوں میں کئی لوگوں نے کہا ”سنا تو ہے کہ وائرس پھیلا ہے لیکن یہاں کچھ نہیں ہے،پریشان مت ہوجائیں“۔ اسی گاوں میں تعزیت کی ایک مجلس میں کئی لوگ بیٹھے تھے جن میں سے بیشتر نے کوئی ماسک پہنے تھے اور نہ ہی وہ مصافحہ کرنے سے پرہیز کئے ہوئے تھے۔گاوں کے ایک ذی عزت شخص کا انتقال ہوگیا تھا اور یہاں کئی لوگ پُرسہ دینے کیلئے حاضر ہورہے تھے۔ وہی کشمیری انداز، وہی آنا جانا اور آنے جانے پر گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کرنا۔ پندرہ بیس لوگوں کے مجمعہ میں مشکل سے دو صاحبان نے منھ پر ماسک چڑھارکھے تھے اور چند ہی لوگ ایسے تھے کہ جو مصافحہ کرنے سے پرہیز کررہے تھے۔ حالانکہ محفل میں موت و حیات کے مسائل اور اظہارِ افسوس کی بجائے کرونا پر ہی زیادہ باتیں ہو رہی تھیں۔ اسی گاوں کے ایک بزرگ نے کہا ”یہ سب ادھر شہر میں ہے یہاں کچھ نہیں ہے،اللہ خیر کرے گا“۔ ایک نوجوان نے مصافحہ کرنے میں احتیاط نہ برتنے پر کہا ”اس میں کیا ڈرنا،یہاں ایسا (کرونا) کچھ نہیں ہے، اتنا کیوں ڈرتے ہیں“۔

دیہات میں سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں یہ بھول پورے کشمیر کو بھاری نہ پڑے   ( مختار  وانی)

جنوبی کشمیر کے اسلام آباد ضلع کے کئی گاوں سے بھی اسی طرح کی اطلاعات ہیں۔ تفصیلات کے نمائندہ ساحر شکیل کی ایک رپورٹ کے مطابق گاوں والے معمول کے مطابق باغات کی دوا پاشی، پیڑ پودوں کی دیکھ بال، ساگ زاروں کی کھدائی اور بوائی کے جیسے کاموں میں مشغول ہیں اور کرونا کے حوالے سے بڑی حد تک بے پرواہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گاوں میں باجماعت نمازیں بھی معمول کے مطابق ہوتی ہیں اور چوپال بھی سجھتے ہیں ۔ رپورٹ میں ہے ”گاوں والے کرونا کی خبریں سُنتے تو ہیں لیکن یہاں کوئی خوف و حراس نہیں ہے اور نہ ہی بہت زیادہ احتیاطی تدابیر کی جا رہی ہیں۔ لوگ روز مرہ کے کام میں اس قدر مشغول ہیں کہ انہیں وبا کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی ہے“۔
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار اشرف حماد نے شوپیاں کا حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ قصبے میں سناٹا ہے اور لوگوں کی نقل و حمل محدود ہوچکی ہے تاہم دیہی علاقوں میں اس حد تک احتیاط نہیں برتی جا رہی ہے کہ جو مطلوبہ ہے۔ انہوں نے کہا ”حالانہ یہاں بھی کوئی چہل پہل تو نہیں ہے لیکن لوگ باغبانی میں مصروف ہیں، ٹریفک وغیرہ بند ہے لیکن میرے خیال میں لوگوں کو اس حد تک وبا پھیلنے کا خدشہ نہیں ہے کہ جتنا ماہرین اندیشہ ظاہر کررہے ہیں“۔ اشرف حماد نے تاہم کہا ”میں خود اندر بیٹھا ہوں، ہو سکتا ہے کہ آپکو خوشبو آرہی ہو میں اندر بیٹھے کافی پی رہا ہوں“۔
پلوامہ سے اخبارِ نگران کے مدیر مختار وانی نے بھی کچھ اسی طرح کے حالات سنائے۔انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ بہت زیادہ پریشان ہیں اور نہ ہی مطلوبہ احتیاط برتتے محسوس ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا ”جس حد تک سرکار نے شہروں میں بندشیں عائد کرکے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر آمادہ کیا ہے اسکے مقابلے میں دیہات میں سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں یہ بھول پورے کشمیر کو بھاری نہ پڑے“۔
شمالی کشمیر کے ہندوارہ سے تاہم اطلاع ہے کہ وہاں کی پولس اہم رول نبھاتے ہوئے لوگوں کو گھروں کی چار دیواری تک محدود کئے ہوئے ہے۔یہاں کے سماجی کارکن اور وکیل ایڈوکیٹ ماجد بانڈے سے ہم نے کہ دیہی علاقوں میں لوگ کرونا کے حوالے سے کس حد تک احتیاط کرتے ہیں،کتنے فکر مند ہیں؟انہوں نے کہا ”بہت حد تک – اس ضمن میں سرکاری مشینری خصوصاََ پولیس کا رول بھی کافی اہم ہے“۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا لوگ سوشل ڈسٹنس بنائے ہوئے ہیں یا پھر خامیاں ہیں ؟ انہوں نے کہا ”ہاں کافی حد تک“۔

ایک نوجوان نے مصافحہ کرنے میں احتیاط نہ برتنے پر کہا ”اس میں کیا ڈرنا،یہاں ایسا (کرونا) کچھ نہیں ہے، اتنا کیوں ڈرتے ہیں

ضلع کمشنر پلوامہ راگو لانگر سے رابطہ کرنے کی کوشش رائیگاں گئی تاہم ضلع کے ایک افسر نے، انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر، بتایا ”بد قسمتی سے دیہی عوام اس خطرے کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں حالانکہ ہم نے لاوڈ اسپیکر کے ذرئعہ منادی بھی کرائی ہے کہ لوگ گھروں میں رہیں،ہم مزید کوشش کریں گے لیکن جب تک لوگ خود اپنی فکر نہیں کریں گے ہماری کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں“۔
واضح رہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور جموں کشمیر بھی اس وبا سے محفوظ نہیں ہے۔ حالانکہ جموں میں تین اور کشمیر میں ایک مریض کی تصدیق ہونے پر یہاں ابھی تک ، خوش قسمتی سے، فقط چار مصدقہ مریض ہیں لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ سینکڑوں لوگوں کے اس وائرس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے اور طبی ماہرین ان پر نظر بنائے ہوئے ہیں۔ اس بدترین وائرس کیلئے ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا ہے تاہم عالمی سطح پر طبی ماہرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ انتہائی صفائی کا اہتمام اور لوگوں کے ایکدوسرے سے دور رہنے سے وائرس کی ترسیل رک سکتی ہے۔ چناچہ ابھی تقریباََ ساری دنیا نے لاک ڈاون کیا ہوا ہے اور لوگ گھروں میں قید ہیں۔ جموں کشمیر میں بھی اسکولوں اور دیگر اداروں کے علاوہ بیشتر سرکاری دفاتر میں چھٹی کا اعلان کیا گیا ہے اور لوگوں کو گھروں میں بند رہنے پر آمادہ کرنے کیلئے سرکاری اور سماجی سطح پر مہم چلائی جا رہی ہے تاہم بعض لوگ ابھی بھی صورتحال کو بہت زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں۔
 

Exit mobile version