سرینگر// اب جبکہ کرونا وائرس کے خوف نے دنیا بھر میں اپنا سایہ گہرا کرتا جارہا ہے،کشمیریوں نے خود کو گھروں میں قید کردیا ہے۔ریاستی انتظامیہ نے آج بھی کرفیو جیسی پابندیاں عائد کردی تھیں جبکہ سوشل میڈیا اور دیگر ذڑائع سے لوگوں کو کسی بھی طرح گھر کی چار دیواری تک محدود کرنے پر آمادہ کیا جارہا ہے۔حالانکہ کشمیر میں ابھی تک فقط ایک مریض کے کرونا کا متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے تاہم ضلع کمشنر سرینگر ڈاکٹر شاہد اقبال چوہدری نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اگر وہ روز مرہ کے واقعات کی تفصیلات سامنے لائیں تو پورے کشمیر میں کوئی سو نہیں سکے گا لہٰذا لوگوں کو تنہائی میں رہنے پر آمادہ ہونا چاہیئے۔
کیوں نہ ہم اپنی انا چھوڑ کر مشترکہ طور کام کرتے ہوئے افراتفری کا شکار ہونے کی بجائے بچاو کریں
حالانکہ وزیر اعظم نریندرا مودی نے آض ”جنتا کرفیو“کی اپیل کی تھی تاہم کشمیر میں یہ لگاتار چوتھا دن ہے کہ جب لوگوں نے اپنی نقل و حمل محدود کردی ہے۔تاہم آج انتظامیہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ سرینگر شہر سمیت پوری وادی میں عملاََ کرفیو نافذ رہے۔چناچہ سرینگر میں تقریباََ سبھی بڑی اور بیشتر چھوٹی سڑکوں پر تار بچھانے کے علاوہ دیگر اقسام کی رکاوٹیں کھڑا کرکے لوگوں کی نقل و حمل مشکل بنائی گئی تھی جبکہ جگہ جگہ پر فورسز اور پولس کی نفری تعینات تھی۔سرکاری فورسز کو تاہم لوگوں کو دور رکھنے کیلئے جتن نہیں کرنا پڑے کیونکہ لوگ کرونا وائرس کے پھیلاو¿ کے خوف سے خود ہی گھروں میں دبکے رہے۔سوشل میڈیا،جو یہاں انٹرنیٹ کے2جی کی رفتار تک محدود ہونے کی وجہ سے لنگڑا لنگڑا کر چل رہا ہے اور سرکار 4جی کی بحالی کا عوامی مطالبہ پورا کرنے پر آمادہ نہیں ہے،پر بھی لوگ گھروں تک محدود رہنے کیلئے ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے پائے گئے۔اس حوالے سے لوگوں نے کئی نعرے اختراع کئے ہیں جنکے ذڑئعہ ایک دوسرے کو گھروں کے اندر رہنے پر آمادہ کیا جارہا ہے اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔اس سلسلے میں کئی نعرے یوں ہیں”یہ کرفیو نہیں ہے بلکہ کئیر فار یو ہے،گھروں میں رہیئے ،لمبا جینا چاہتے ہیں تو کچھ دیر کیلئے تنہائی اختیار کریں،وغیرہ وغیرہ“۔
یہ وائرس خود بخود نہیں چلتا ہے بلکہ اسے کسی لیجانے والی چیز کی ضرورت ہے
سرینگر میں سبھی چھوٹے بڑے بازار ،کاروباری ادارے اور دفاتر بند رہے جبکہ یہاں کے سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں اب ہفتہ بھر سے چھٹیاں چل رہی ہیں۔سرکار نے سرکاری دفاتر میں بھی چھٹی کا اعلان کیا ہوا ہے۔ایک سرکاری حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ 24مارچ کو دفاتر میں چھٹی رہے گی جبکہ25مارچ کو ویسے بھی عام تعطیل ہے۔ایک سرکاری ترجمان نے بتایا کہ اگرچہ آج وادی میں بہت حد تک لوگ گھروں میں رہے تاہم وہ چاہتے ہیں کہ لاک ڈاون اس حد تک ہوجائے کہ وائرس کی ترسیل پوری طرح نا ممکن ہو جائے۔انہوں نے کہا”جیسا کہ پہلے ہی ماہرین نے واضح کیا ہوا ہے یہ وائرس خود بخود نہیں چلتا ہے بلکہ اسے کسی لیجانے والی چیز کی ضرورت ہے اور اسی لئے ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے سے دور رہیں تاکہ وائرس کو پھیلنے کا موقعہ نہ ملے“۔انہوں نے کہا کہ اچھی بات یہ ہے کہ لوگ صورتحال کا ادراک کرنے لگے ہیں لیکن بُری بات یہ ہے کہ لوگ سمجھدار ہونے میں وقت لگارہے ہیں حالانکہ ہم ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہیں کہ جہاں ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔انہوں نے کہا”لوگوں کو ایک دم سمجھدار ہوکر گھر میں رہنا چاہیئے اور وہ تمام احتیاطی تدابیر اپنانی چاہیئے کہ جو عالمی سطح پر ماہرین کی جانب سے تجویز کی گئی ہیں“۔
جموں کشمیر میں ابھی تک چار مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے تین جموں اور ایک کشمیر سے تعلق رکھتا ہے
کرونا وائرس پوری دنیا میں تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور ابھی تک ہزاروں لوگ ہلاک اور لاکھوں دیگر متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے کتنوں ہی کے زندہ نہ بچ پانے کا اندیشہ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وائرس کا ابھی تک کو رد نہیں ہے اور صفائی ستھرائی کے علاوہ سماجی فاصلہ بنانا یعنی لوگوں کا ایک جگہ جمع نہ ہونا انتہائی لازمی ہے۔جموں کشمیر میں ابھی تک چار مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے تین جموں اور ایک کشمیر سے تعلق رکھتا ہے۔سرینگر کی ایک خاتون،جو سعودی عرب سے لوٹی تھیں،کے نمونوں کی جانچ مثبت آنے کے بعد سے کشمیر میں خوف و حراس کا ماحول ہے اور سرکار لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔حالانکہ سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ مذکورہ خاتون کے سوا ابھی تک،خوش قسمتی سے،کسی بھی مریض میں کرونا وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے لیکن ضلع کمشنر سرینگر شاہد اقبال چوہدری،جو کرونا کے انسداد کی کوششوں میں پیش پیش ہیں،نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اگر وہ روزانہ بنیادوں پر واقعات کی تفصیل بیان کریں تو انہیں یقین ہے کہ کشمیر میں کوئی سو نہیں پائے گا۔انہوں نے کہا ”کیوں نہ ہم اپنی انا چھوڑ کر مشترکہ طور کام کرتے ہوئے افراتفری کا شکار ہونے کی بجائے بچاو کریں“۔