کرونا:کشمیری قیدیوں کے لواحقین بے حال

سرینگر// اس وقت جب پوری دنیا کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس نے ہندوستان بھر میں بھی خوف و دہشت پھیلائی ہوئی ہے اور ماہرین صورتحال کو دھماکہ خیز بتارہے ہیں،کشمیر میں سینکڑوں گھرانوں کو ایک خاص فکر لاحق ہے!ان گھرانوں کے افراد سیاسی یا دیگر وجوہات کیلئے سرینگر سے لیکر کنیا کماری تک کی جیلوں میں بندپڑے ہیں۔ان قیدیوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ انہیں ،دائمی طور نہ سہی،کرونا وائرس کا خطرہ ٹل جانے تک رہا کیا جانا چاہیئے۔
شمالی کشمیر کے ہندوارہ قصبہ کی رہائشی ممتازہ(یہ انکا فرضی نام ہے)نامی ایک جواں سال خاتون کا کہنا ہے کہ انکے شوہرفیاض(فرضی نام) کو گئے سال 5اگست کو دفعہ 370کی تنسیخ سے دو روز قبل پولس نے تھانے پر بلایا اور پھر وہیں سے انہیں جیل بھیجدیا گیا۔انہوں نے کہا”انہیں تھانے بلایا گیا تھا لیکن واپس گھر جانے کی اجازت نہیں دی گئی،بعدازاں پتہ چلا کہ انہیں اترپردیش کی ایک جیل کو منتقل کیا گیا“۔نم آنکھوں کے ساتھ انہوں نے کہا کہ انکے شوہر ایک نجی اسکول میں استاد ہیں اور گھر کا گذارہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے لیکن پولس نے نہ جانے کیوں انہیں گرفتار ہی نہیں کیا بلکہ سینکڑوں میل دور جیل میں بند کردیا۔اس جوڑے کے تین چھوٹے بچے ہیں جو اپنی بے بس ماں اور دادا دادھی کے ساتھ رہتے ہیں۔ممتازہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے بڑی مشکل سے دو ایک بار زادِ راہ کا انتظام کرکے یو پی کی ایک جیل میں بند اپنے شوہر کے ساتھ ملاقات کی جو انتہائی بری حالت میں تڑپ رہے ہیں۔تاہم کرونا وائرس کا خطرہ بڑھنے کے بعد ممتازہ اور انکے ساس سسر کی زندگی انتہائی تکلیف دہ بن چکی ہے کیونکہ انکا سارا دھیان یو پی میں بند پڑے فیاض کی جانب ہے۔وہ کہتی ہیں”اگر یہ بیماری جیل میں بھی پھیلی تو کیا ہوگا،یہ سوچ سوچ کر میں پاگل ہورہی ہوں،خدا کیلئے کوئی سرکار کو یہ سمجھائے کہ میرے بچوں کا انکے باپ کے سوا کوئی نہیں ہے جبکہ میرے ساس سسر بھی نہایت ہی بزرگ اور بے آسرا ہیں“۔

میرے خیال میں سرکار کو ایران کی طرح جیلوں کے دروازے کھول دینے چاہیئے تھے۔کم از کم ان لوگوں کو رہا کیا جانا چاہیئے کہ جن پر سنگین الزامات نہیں ہیں

ممتازہ ایسی واحد خاتون نہیں ہیں کہ جنکے شوہر کسی دور ریاست میں نظربند ہیں۔دفعہ370کی تنسیخ اور سابق ریاست جموں کشمیر کو دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے سے قبل مرکزی سرکار نے یہاں کرفیو لگانے کے علاوہ سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا تھا جن میں تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت مین اسٹریم کے کئی لیڈران و کارکن بھی شامل تھے۔ان لوگوں میں سے بیشتر کو دلی،بریلی،جودھپور،لکھنو اور نہ جانے کہاں کہاں کی جیلوں کو منتقل کیا جاچکا ہے اور وہ ہنوز بند پڑے ہوئے ہیں۔شمالی کشمیر کے ہی غلام قادر نامی شخص کے مطابق انکے چھوٹے بھائی تہار جیل میں بند ہیں جبکہ جنوبی کشمیر کے کولگام ضلع کے بشیر احمد کے بیٹے ایسے کئی کشمیریوں میں شامل ہیں کہ جو جودھپور میں نظربند ہیں۔ان لوگوں کو ”نقصِ امن کیلئے خطرہ “بتاکر نظربند کیا جاچکا ہے جبکہ انکے علاوہ علیٰحدگی پسند تنظیموں کے درجنوں لیڈروں اور کارکنوں کو بھی مختلف الزامات کے تحت گرفتار کرکے بیرون ریاست کی مذکورہ جیلوں میں رکھا گیا ہے۔ان نظربندوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے کی وجہ سے وہ اپنے پیاروں کی سلامتی کو لیکر انتہائی فکر مند ہیں۔
جموں کشمیر ہائی کورٹ کے ایک سرکردہ وکیل نے،انکا نام نہ لئے جانے کی شرط پر،بتایا”میرے خیال میں سرکار کو ایران کی طرح جیلوں کے دروازے کھول دینے چاہیئے تھے۔کم از کم ان لوگوں کو رہا کیا جانا چاہیئے کہ جن پر سنگین الزامات نہیں ہیں“۔مذکورہ وکیل نے کہا کہ ہندوستان کے سبھی جیل کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں اور ان میں جگہ نہیں ہے لہٰذا کرونا وائرس ،جس سے بچاو کی تدابیر میں سب سے اہم لوگوں کے درمیان فاصلہ بنائے رکھنا سب سے اہم ہے،ان جیلوں میں تباہی پھیلا سکتا ہے“۔انسانی حقوق کے لئے سرگرم ایک کارکن کے مطابق حکومت کو کم از کم اس بات پر سوچنا چاہیئے کہ ان قیدیوں کو دائمی طور نہ سہی تاہم کرونا وائرس کا خطرہ ٹل جانے تک پیرول پر چھوڑا جانا چاہیئے۔واضح رہے کہ کرونا کی وبا کے بد ترین شکار ایران نے اپنے قیدخانوں کے دروازے کھول کر ستر ہزار قیدیوں کو ”عارضی طور“رہا کردیا ہے۔

Exit mobile version