ایک پاکستانی ماں کا اپنے فوت شدہ فوجی بیٹے کے نام خط

پاک فوج کے آپریشن ضربِ عضب میں مارے جاچکے ایک نوجوان افسرایس ایس جی کمانڈو کیپٹن آکاش آفتاب ربانی کی والدہ اپنے بیٹے کو بہت یاد کرتی ہیں۔ا±نہوں نے اپنے فوت شدہ بیٹے کے نام ،جنہیں وہ کاشی کہکر پکارا کرتی رہی ہیں،ایک جذباتی خط لکھا ہے جسے پڑھکر ماں کے دل کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے اور ہر حساس دل رکھنے والے شخص کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔ مائیں جہاں کی بھی ہوں وہ نعمت ہوتی ہیں اور اُنکے پیار کی سرحدیں بھی نہیں ہوتیں لہٰذا پاکستان کے اخبار ”روزنامہ پاکستان“ میں اس دلچسپ خط کو پڑھکر تفصیلات نے مذکورہ اخبار کے شکریہ کے ساتھ اسے اپنے قارئین کی دلچسپی کیلئے نقل کیا ہے۔

میری آنکھوں کے نور میرے دل کے ٹکڑے میرے بیٹے آکاش!

3سال ہوگئے میرے بیٹے تمہیں دیکھے ہوئے 2014کی 17اور 18مئی کو ہم تربیلا میں تمہارے ساتھ تھے۔وہ آخری دفعہ ہم سب اکٹھے تھے۔ وہ ہماری زندگی کے حسین ترین، پرسکون اور بہت قیمتی دو دن تھے اور میں اتنی نادان اتنی بھولی ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ میں اپنے شہزادے سے آخری بار مل رہی ہوں۔ کاش میں ا 177ن سب دنوں کو جو تمہارے ساتھ گزرے کسی طرح Saveکر لیتی اور جب بھی چاہتی انھیں دیکھ سکتی۔لیکن میر ے بچے بس صرف اور صرف یادیں ہی رہ جاتی ہیں جو اب کسی انمول خزانے سے کم نہیں۔

ایک طرف سے خوش بھی ہوتی ہوں کہ زندگی سے 3سال کم ہوگئے اور تم سے ملنے کے ٹائم میں کچھ کمی ہوئی۔پر یہ تو میرا اللہ ہی جانتا ہے کہ ابھی بھی کتنا فاصلہ باقی ہے۔

کاشی ! جنت کا تصور اچھا لگتا ہے۔اس لئے نہیں کہ وہاں پر ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی اور بہت آرام ہوگا۔ بلکہ اسلئے کہ وہاں موت نہیں ہو گی۔ اور کوئی کسی سے نہیں بچھڑے گا۔وہاں شاید ہم جیسی ماو ں کے بچے ان سے نہیں بچھڑیں گے۔اور جو بچے یہاں یتیم ہیں۔وہاں انکے والدین انکے ساتھ ہوں گئے اور وہاں بچھڑنے والی خطرناک ترین اور افسوسناک ترین صورت حال نہیں ہو گی۔ وہاں یہ جُدائیاں یہ ویرانیاں اور یہ اُداسیاں نہیں ہوں گی انشائاللہ۔

کاشی اکثر یہ ہی سوچتی رہتی ہوں کہ کاش تو مجھ سے نہ بچھڑتا کاش تو ہمارے ساتھ اپنی فیملی کے ساتھ ہوتا تو ہم مکمل ہوتے کتنے خوش ہوتے۔

کاشی ! جنت کا تصور اچھا لگتا ہے۔اس لئے نہیں کہ وہاں پر ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی اور بہت آرام ہوگا۔ بلکہ اسلئے کہ وہاں موت نہیں ہو گی۔ اور کوئی کسی سے نہیں بچھڑے گا۔وہاں شاید ہم جیسی ماو ں کے بچے ان سے نہیں بچھڑیں گے۔اور جو بچے یہاں یتیم ہیں۔وہاں انکے والدین انکے ساتھ ہوں گئے اور وہاں بچھڑنے والی خطرناک ترین اور افسوسناک ترین صورت حال نہیں ہو گی۔ وہاں یہ جُدائیاں یہ ویرانیاں اور یہ اُداسیاں نہیں ہوں گی انشائاللہ۔

کاشی! پتہ نہیں جنت میرے نصیب میں ہے یا نہیں۔پر مجھے بس اس جنت کا انتظار ہے جہاں میرے بچے میرے ساتھ اکٹھے ہوں۔میری ساری فیملی میرے ابو تمھارے داداابو سب اکٹھے ہوں۔الگ ہونے کی بچھڑنے کی کوئی بات نہ ہو۔

کاشی! لاونج میں تمہاری seat خالی ہوتی ہے۔ ڈائننگ ٹیبل پر تمہاری کرسی خالی ہوتی ہے۔ٹیبل پر تمہارے نام کی پلیٹ ،سپون اور فورک نہیں ہوتا۔جب میں درزی سے کپڑے سلواتی ہوں۔تو اس میں تمہارے جوڑے نہیں ہوتے۔ تمہارے نام کی shoppingنہیں ہوتی۔کاشی کو یہ پسندہے تو یہ پکے گا،اب یہ نہیں ہوتا۔گھر میں لانڈری میں تمہارے کپڑے نہیں دھلتے۔اب کبھی بھی مجھے تمہارا بستر نہیں بنانا ہوتا ،تمہارا انتظار نہیں ہوتا کہ وہ راستے میں ہے اور آرہا ہے بار بار فون نہیں کرنا ہوتا۔کاشی کہاں پہنچے ہو۔کب تک گھر پہنچو گے۔کاشی آہستہ گاڑی چلانا۔دیکھو راستے میں فضول نہ رکنا۔

کاشی! میرے فون پر تمہارے نام کیring نہیں آتی۔تمہارے نام سے کوئی messageنہیں آتاکاشی میری جان ،کیا بتاوں کس کس بات پر میں نہیں تڑپتی۔دُکھی ہوتی اور نہیں ٹوٹتی۔کاشی قدم قدم پر ہر ہر بات میں تمہاری کمی محسوس ہوتی ہے۔ کاشی تم نے اپنی زندگی میں ایک گانا PMA کے دورانیہ میں youtubeپرڈالا تھا۔
جو بھی قدم تم اٹھاو 191 گے میں یاد آو 191ں گا
جب تنہا راہوں میں جاو 191 گے میں یاد آو 191ں گا

ہاں کاشی ایسا ہی ہے ساری دنیا اردگرد ہے لیکن لگتا ہے تنہاہوں، کچھ نہیں ہے۔
میرے بیٹے کاشی I miss youپلیز واپس آجاو …. کاش تمہیں اندازہ ہو کہ میں تمہیں کتنا یاد کرتی ہوں۔اکثر سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں اللہ جی کاشی آپ کا دیا ہوا تحفہ تھا,آپ کی چیز تھی آپ کی امانت تھی,آپ کو بھی بہت پیارا تھا,آپ نے مجھ سے واپس لے لیا,میں آپ سے گِلہ نہیں کر سکتی پر پلیز مجھے خواب میں تو اس سے ملوا دیا کریں….میں اس کی چمکتی ہوئی گہری آنکھیں دیکھ لوں،میں اسکے خوبصورت معصوم چہر ے کی فرشتوں کی سی مسکراھٹ دیکھ لوں،میں اسکے وہ گولو گولو سے ہاتھ اور پاوں چھولوں،میں اس کی وہ آوازسُن لوں کہ جب وہ بولتا تھا تو جیسے میرے کانوں میں رس سا گھلتا تھا۔کاشی ساری خواہشیں ختم کر ایک خواہش رہ گئی ہے میں کاشی کو دوبارہ کب دیکھوں گی ا±ف کاشی اتنا تنا لمبا انتظار۔
کاشی !آج شام کو بہت اچھا موسم ہو رہا تھا بہت خوشگوار ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ….کاشی تو بہت یاد آرہا تھا،تیری باتیں کہ ایسے موسم میں تو کہا کرتا تھا۔

آکاش! جب بھی ٹی وی پر Talkshow میں یہ تبصرہ ہوتا ہے۔کہ فلاں آپریشن کے بعد ملک میں امن وامان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے اور دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں۔تو کبھی کسی نہ کسی جنرل کو کریڈٹ دیا جاتا ہے یا حکمرانوں کے نمائندے زبردستی کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں وہ پڑھے لکھے اور سمجھدار anchor’sبھی ان شہیدوں کو بھول جاتے ہیں جنہوں نے اس دہشت گردی کی جنگ میں اپنے ملک اپنی سرزمین کے امن و سلامتی کے لیئے اپنی قیمتی جانیں قربان کی ہوتی ہیں۔یہ سب دیکھ کر سب شہیدوں کی ماو ں کی طرح مجھے بھی بہت تکلیف ہوتی ہے۔

”امی آئیں سب باہر برآمدے میں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیںاور ساتھ کچھ باٹا کھاپاہو جا ئے“۔جب بھی تم اچھا کھانا کھاتے یا اچھی پارٹی ہوتی تو تم کہتے تھے آج تو بہت کھانا کھایا، امی اب دو دن میں میں کچھ نہیں کھاو ں گا۔
او کاشی ہر بات کے ساتھ تمہاری کوئی نہ کوئی یاد جڑی ہوتی ہے۔
اور کاشی کیا بتاو ں زندگی کی وہی روٹین ہے۔تین سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلاجب تک انسان زندہ ہے بس وہی تماشے اور ڈرامے جو شروع سے ہوتا چلا آرہا ہے۔کاشی میں کچھ نہ کچھ تو کرتی رہتی ہوں اِدھراُدھر بھی آتی جاتی رہتی ہوں زندگی کاٹنی جو ہے نارمل تو نہیں رہتا بندہ۔لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے کہ زندگی تیزی سے گزر رھی ہے۔اور ختم ہوجائے گی۔اور یہاں میں ختم ہونے کے انتظار میں جیئے جارہی ہوں۔

کاشی! عجیب سی زندگی ہے،خوشی کی بات پر بھی خوشی نہیں ہوتی ہاں پریشانی کی بات پر زیا دہ پریشانی اور دُکھ ہوتا ہے۔ ایسے لگتا ہے برداشت ختم ہو گئی ہے ہمت جواب دے گئی ہے۔ ہر وقت جیسے کوئی جھنجھلا کر بیٹھا ہوا ہو۔

لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے کہ زندگی تیزی سے گزر رھی ہے۔اور ختم ہوجائے گی۔اور یہاں میں ختم ہونے کے انتظار میں جیئے جارہی ہوں۔

آکاش! ہم کیپٹن سلما ن سرور کے یومِ شہادت پر لاہور گئے تھے۔اُنہوں نے سلمان کا یوم شہادت پوری اچھی طرح سے organizeکیا۔بہت سے شہداءکی فیمیلیز آئی ہوئی تھیں۔ہم سب کے چہروں پر ایک ہی کہانی تحریر تھی۔جو ہم با آسانی ایک دوسرے کے چہرے سے پڑھ سکتے تھے۔اپنے جیسے لوگو ں کے ساتھ وہ دو دن بہت اچھے گزرے۔

آکاش! جب بھی ٹی وی پر Talkshow میں یہ تبصرہ ہوتا ہے۔کہ فلاں آپریشن کے بعد ملک میں امن وامان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے اور دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں۔تو کبھی کسی نہ کسی جنرل کو کریڈٹ دیا جاتا ہے یا حکمرانوں کے نمائندے زبردستی کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں وہ پڑھے لکھے اور سمجھدار anchor’sبھی ان شہیدوں کو بھول جاتے ہیں جنہوں نے اس دہشت گردی کی جنگ میں اپنے ملک اپنی سرزمین کے امن و سلامتی کے لیئے اپنی قیمتی جانیں قربان کی ہوتی ہیں۔یہ سب دیکھ کر سب شہیدوں کی ماو ں کی طرح مجھے بھی بہت تکلیف ہوتی ہے۔

کاشی رمضان آنے والا ہے کوشش کروں گی کہ اچھے سے عبادت کر سکوں۔اور کاشی گھر میں سب خیریت ہے سب کے لیئے دعا کرنا۔
اب اجازت چاھتی ہوں۔
اللہ حافظ
تمہاری ماں۔

Exit mobile version