اُسامہ بن لادن کی ان کہی اور سنسنی خیز کہانی

افغانستان کے تورا بورا سے فرار اور تقریباً دس سال بعد ایبٹ آباد میں امریکی سپیشل فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کے درمیانی عرصے میں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کہاں تھے اور اُن پر کیا گزری؟اس سوال کے جواب میں قیاس آرائیاں بہت ہوئی ہیں اور افواہیں بھی بہت گردش کرتی رہی ہیں لیکن اب ایک نئی کتاب میں القاعدہ کے رہنما کے اِن دس برسوں کی کہانی تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔

”دا ایگزائل“ نامی کتاب میں نہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے’ ’مطلوب ترین مجرم“ کہلانے والے شخص کس طرح دنیا سے چُھپے رہے بلکہ یہ بھی کہ اُن کے خاندان اور تنظیم پر اس کا کیا اثر پڑا۔

اس کتاب کے مصنفین کیتھرین سکاٹ کلارک اور ایڈریئن لیوی ہیں جن دونوں کا تحقیقاتی صحافت میں ایک بڑا نام ہے۔ اس کتاب میں بھی اس تحقیقاتی ٹیم نے بہت تفصیل سے معلومات جمع کی ہیں، جن میں خاص اہمیت اس کہانی کے کئی اہم کرداروں سے ان کے انٹرویوز ہیں۔

ایران نے 2003 میں ایک بیک چینل کے ذریعے امریکہ سے اُسامہ خاندان کو اس کے حوالے کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن امریکہ نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور اس پیشکش کو رد کر دیا۔ اس وقت امریکہ کی پوری توجہ عراق پر حملے کی تیاریوں پر مرکوز تھی، اور وہ عراق کا القاعدہ سے تعلق دکھانا چاہتا تھا۔

اہم کرداروں کی گواہی اس کتاب کی خاص بات ہے اور اس میں نہ صرف اُسامہ کی کئی بیویوں اور بچوں کے بیانات شامل ہیں بلکہ القاعدہ سے منسلک اہم افراد اور دیگر انٹیلی جنس اہلکاروں کے بھی۔ غالباً یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اسامہ بن لادن کے خاندان نے اس دہائی پر کھل کر بات کی ہے۔

چھ سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کئی انکشافات شامل ہیں،جن میں سے بعض اس طرح ہیں:
٭اُسامہ بن لادن کی بیوی خیریہ اور ان کے بہت سے بچے سنہ 2010 تک ایران میں رہے۔ ان کا مقام کبھی مہمان کا ہوتا، کبھی پناہ گزین کا تو کبھی قیدی کا۔

٭ایران نے 2010 میں اُسامہ کے خاندان اور القاعدہ کے اہلکاروں کو صرف اس لیے نکلنے دیا کہ القاعدہ نے پشاور سے ایک ایرانی اہلکار کو اغوا کر لیا تھا اور یہ اس کی رہائی کا سودا تھا۔

٭ایران نے 2003 میں ایک بیک چینل کے ذریعے امریکہ سے اُسامہ خاندان کو اس کے حوالے کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن امریکہ نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور اس پیشکش کو رد کر دیا۔ اس وقت امریکہ کی پوری توجہ عراق پر حملے کی تیاریوں پر مرکوز تھی، اور وہ عراق کا القاعدہ سے تعلق دکھانا چاہتا تھا۔

٭اُسامہ کے دو بچے ایران کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ 2008 میں انکے بیٹے سعد احاطے کی دیوار پھلانگ کر بھاگ گئے (بعد میں وہ وزیرستان میں ایک ڈرون حملے میں مارے گئے تھے) اور پھر 2010 میں اُسامہ کی 18 سالہ بیٹی، ایمان، تہران کے ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور سے فرار ہو گئیں۔ ایمان نے دکان سے ایک گڑیا کو لے کر اپنے گود میں بچے کی طرح پکڑا، سر پر کپڑا اوڑھا اور سٹور سے نکل کر اس نے سعودی عرب میں اپنے بڑے بھائی کو فون کیا جس نے اسے سعودی سفارتخانے جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ وہ ان سے فوراً رابطہ کرے گا۔ ایمان بن لادن پانچ ماہ تک سفارتخانے میں رہیں اور بالآخر وہ اپنے بھائی عمر اور بھابی زیئنہ کی کوششوں کے نتیجے میں نکل سکیں۔ ان کی ماں نجوہ نے (جو اُسامہ کی پہلی بیوی تھیں اور جو گیارہ ستمبر کے حملوں سے دو دن پہلے افغانستان سے چلی گئی تھیں) اُنھیں نو سال کے عرصے کے بعد دیکھا۔

٭القاعدہ کی مرکزی شوریٰ نے گیارہ ستمبر یا ”طیارہ منصوبے“ کو منظور کرنے سے انکار کر دیا تھا اور شوریٰ کے کئی ارکان نے اس کے خلاف آواز اُٹھائی تھی لیکن اس کی حمایت اور منصوبہ بندی ایک ایسا شخص کر رہا تھا، جو القاعدہ کا رکن تک نہیں تھا، لیکن جس نے ایسے کئی اور منصوبے بنائے۔ بعد میں اسی شخص نے القاعدہ کے مفرور رہنماو¿ں اور کارکنوں کو کراچی میں کئی فلیٹوں میں بھی رکھا۔

اُسامہ بن لادن کی بیویوں کو ان کی بیوی خیریہ پر شک تھا کہ ان کے ایبٹ آباد آنے سے حکام کو اُسامہ کا اتا پتا معلوم ہو سکا۔ (خیریہ کی اکلوتی اولاد حمزہ بن لادن اب اُسامہ کے جہادی وارث سمجھے جا رہے ہیں، اور شاید ان کے واحد بیٹے ہیں جو اس راہ پرگامزن ہیں)۔

٭اُسامہ بن لادن بھی کچھ دن کراچی میں رہے اور ایک چھاپے میں گرفتاری سے بال بال بچے تھے۔

٭جنرل حمید گل (آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی اور دفاع پاکستان کونسل کے رہنما) نے سنہ 2005میں اُسامہ کو مولانا فضل الرحمان خلیل کے ذریعے ایک پیغام بھجوایا تھا۔ اُسامہ اس ملاقات کے لیے ایبٹ آباد سے قبائلی علاقے آئے تھے۔ (جنرل حمید گل کا ہمیشہ یہ کہنا رہا کہ ”اُسامہ تورا بورا کی بمباری میںمارے گئے تھے اور امریکی ایک ڈرامہ کرتے رہے ہیں)“۔
٭اُسامہ بن لادن کے کئی بیٹے سپیشل بچے تھے، یعنی وہ ”اوٹِسٹِک“ تھے۔ ان میں سعد بن لادن بھی شامل تھے۔

٭ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام تفتیش کاروں کو خالد شیخ محمد نے تفتیش میں بہت جلدی دے دیا تھا۔

٭اُسامہ بن لادن کی بیویوں کو ان کی بیوی خیریہ پر شک تھا کہ ان کے ایبٹ آباد آنے سے حکام کو اُسامہ کا اتا پتا معلوم ہو سکا۔ (خیریہ کی اکلوتی اولاد حمزہ بن لادن اب اُسامہ کے جہادی وارث سمجھے جا رہے ہیں، اور شاید ان کے واحد بیٹے ہیں جو اس راہ پرگامزن ہیں)۔

الکویتی اور اس کا بھائی اُسامہ بن لادن اور اُن کے خاندان کو سنبھالنے کی ذمہ داری سے اتنا تھک چکا تھا کہ اس نے اُسامہ کو اپنا استعفیٰ دے دیا تھا اور دونوں میں سمجھوتہ ہو گیا تھا کہ اُسامہ گیارہ ستمبر کے حملوں کی دسویں برسی کے بعد اس گھر سے چلے جائیں گے۔ اس سمجھوتے کو تحریری شکل دے دی گئی تھی۔ اگر اُسامہ یہ مہلت حاصل نہ کرتے تو شاید وہ مئی میں ایبٹ آباد سے نکل چکے ہوتے۔

٭امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے اور وفاقی ادارے ایف بی آئی میں تفتیش کے طریقہ کار پر اختلافات رہے۔ سی آئی اے نے تشدد کو ترجیح دی، خاص طور پر واٹر بورڈنگ کو۔

٭امریکہ کا ایک غیرقانونی حراستی مرکز (رینڈشن سینٹر) تھائی لینڈ میں تھا جہاں ابوزبیدہ کو بھی رکھا گیا۔

٭ابو مصعب الزرقاوی کے بارے میں القاعدہ کی مرکزی شوریٰ کے ارکان اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے اُنہیں ان پڑھ اور جذباتی سمجھا تھا لیکن افغانستان پر حملے کے بعد جب اعلیٰ قیادت ہلاک یا محدود ہوگئی تو خالد شیخ محمد اور الزرقاوی نے القاعدہ کے نام پر بڑے حملے کروائے ۔

٭ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کو بسانے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے شخص کا کوہاٹ سے تعلق تھا اور اس کام پر اسے خالد شیخ محمد نے لگایا تھا۔ ان دونوں کے والدین کی کویت میں ملازمت تھی اور وہیں سے ان کی واقفیت ہوئی تھی۔ ابراہیم عرف ابو احمد الکویتی نے تنظیم کے پیسوں سے ایبٹ آباد میں نو پلاٹ خرید کر ان پر گھر بنوایا۔ کنٹونمنٹ بورڈ نے اس کی کوئی چیکنگ نہیں کی اور نہ ہی کسی نے اعتراض کیا جب مقررہ اونچائی سے زیادہ کی دیوار کھڑی کی گئی۔

٭الکویتی اور اس کا بھائی اُسامہ بن لادن اور اُن کے خاندان کو سنبھالنے کی ذمہ داری سے اتنا تھک چکا تھا کہ اس نے اُسامہ کو اپنا استعفیٰ دے دیا تھا اور دونوں میں سمجھوتہ ہو گیا تھا کہ اُسامہ گیارہ ستمبر کے حملوں کی دسویں برسی کے بعد اس گھر سے چلے جائیں گے۔ اس سمجھوتے کو تحریری شکل دے دی گئی تھی۔ اگر اُسامہ یہ مہلت حاصل نہ کرتے تو شاید وہ مئی میں ایبٹ آباد سے نکل چکے ہوتے۔

ان انکشافات کے علاوہ کتاب میں اور بہت سی تفصیلات شامل ہیں جن سے تاریخ کے اس دور اور” دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ “کی اس لڑائی کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوتا ہے اور یہ ا±س بیانیے سے ہٹ کر ہے جس کا دعویٰ القاعدہ یا امریکہ کرتے ہیں۔

اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ القاعدہ کے اندر کی کہانی ہے، سیاسی بھی اور خاندانی بھی۔ مصنفین نے خاص طور پر ابو حفس الموریطانی (ابن الولید محفوظ) سے جو معلومات حاصل کی ہیں اس سے تاریخ کے اس دور کا بہت کچھ پتہ چلتا ہے۔(بشکریہ برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن)

Exit mobile version