(تفصیلات مانیٹرنگ )
سابق علیٰحدگی پسند اور حیوانات کے وزیر سجاد غنی لون نے کہا ہے کہ کشمیر میں آر ایس ایس بہت پہلے سے سے سرگرم ہے اور وہ خود بھی سنہ 2000 سے بی جے پی کے قریب رہے ہیں۔وہ پارٹی کا احسان مانتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس(بی جےپی)نے اُن کا بڑا خیال رکھا ہے۔یہ باتیں اُنہوں نے اِکنامک ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتائی ہیں۔
اِکنامک ٹائمز کے شکریہ کے ساتھ پیش ہیں من و عن انٹرویو کے چند سوال و جواب
سوال:کیا پی ڈی پی -بی جے پی اتحاد نے آر ایس ایس کو کشمیر میں داخلہ لینے میں مدد دی ہے؟
جواب:آر ایس ایس یہاں بہت پہلے سے موجود تھی، اُنہیں حق حاصل ہے یہاں آنے کا کہ اگر وہ لوگوں کو قبول ہوں،اس میں مسئلہ ہی کیا ہے؟ویسے عمر لگتی ہے کہیں پیر جمانے میں ،یہ محض ایک پروپیگنڈہ ہے۔
سوال:کیا آپ بی جے پی کے اتحادی ہونے میں خوش ہیں؟
جواب:میں نے انتخابات سے قبل ہی اس بات کا واضح اشارہ دیا تھا کہ میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کروں گا۔آپ مجھے بتائیں کہ اس میں کیا پرابلم ہے۔جموں و کشمیر میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے والا پہلا شخص عمر عبداللہ تھا۔میں بی جے پی کا دفاع تو نہیں کر رہا ہوں لیکن مجھے بتائیں کہ کانگریس کب سے کشمیریوں کی غمخوار ٹھہری؟کشمیریوں کو تو کانگریس کے ہی دورِ اقتدار میں پھانسیاں لگی ہیں،جموں اور وادی میں تقسیم بھی کانگریس کی ہی دین ہے۔
سوال:عمر عبداللہ کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر کا نیا دار الخلافہ ناگپور(آر ایس ایس ہیڈ کوارٹر) ہے،آپ کیا کہیں گے؟ جواب:عمر عبداللہ وہ ہیں کہ جو 1996سے2015تک 60 (اسمبلی)سیٹوں سے 15تک لڑھک گئے ہیں۔اس پر گور کرنے کی بجائے وہ ”نان ایشوز‘‘ اُبھارتے ہیں۔میرا خیال تھا کہ وہ 21سیٹیں تک جیت جائیں گے لیکن اُنہوں نے سرنڈر کیا،وہ ایک اچھے منتظم نہیں ہیں۔
سوال:آپ کو بی جے پی کے نزدیک کیسے آئے؟
جواب:میں بی جے پی کو واجپائی کے دور سے ہی پسند کرنے لگا تھا،میں اُس نظم کے قریب تھا۔اُنہوں نے واقعتاََ میرا بڑا خیال رکھا با الخصوص میری سکیورٹی کے حوالے سے۔میں نے پردے کے پیچھے بڑا کردار ادا کیا ہے۔مسٹر دُلت(انٹیلی جنس ایجنسی را کے سابق چیف) تب وزیرِ اعظم دفتر میں ہوا کرتے تھے۔مجھے موقعہ ملا ”کنٹریبیوٹ‘‘کرنے کا اور مذاکرات کے لئے راستہ بنانے کا۔اس سب کی وجہ سے ہی مجھ پر یہاں(کشمیر میں) ہندوستانی کی لیبل لگائی گئی۔
سوال:وادی میں پاکستانی پرچم لہرائے جانے کے واقعات کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
جواب:میں کبھی پرچمِ پاکستان نہیں لہراوں گا،یہاں تک کہ جب میں ایک علیٰحدگی پسند تھا تب بھی میں نے کبھی پاکستانی جھندا نہیں لہرایا ہے۔میں کبھی ایسی ریلی میں تقریر نہیں کرتا کہ جہاں پاکستانی جھندا لہرایا جائے۔ایمانداری سے کہتا ہوں کہ اگر کوئی پاکستان سے یہاں اتنی ہی محبت کرتا ہے کہ وہ یہاں پاکستانی پرچم لہرائے ،میری اُن کے لئے تجویز ہے کہ وہ وہیں چلے جائیں اور پاکستان کی مدد کریں۔
سوال:کیا آپ اب بھی سید علی شاہ گیلانی کے بارے میں سوچتے ہیں؟
جواب:وہ خدا نہیں ہیں۔میں ایک بزرگ کی حیثت سے اُنکی عزت کرتا ہوں۔وہ میرے والد کے دوست رہے ہیں۔سیاسی طور تو میں کبھی اُنکے بارے میں اب سوچتا تک نہیں ہوں۔