(سوپور,( قاضی مدثر،صریر خالد
یوں تو اُنکی کالی بڑی آنکھوں اور سرخ مائل سفید چہرے کو دیکھ کر اُنہیں کسی خوبرو عام نوجوان سے الگ سمجھنا ممکن نہیں ہے لیکن محمد عامر کنہ گذشتہ ساڑھے چار سال سے بس ایک زندہ لاش سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ سوپور کے ایک غریب گھر کے یہ چشم و چراغ 2010میں پولس کی طاقت کا نشانہ بننے کے بعد سے ناکارہ ہوکر یوں بستر میں پڑے ہیں کہ جیسے کوئی بے جان شے ہو لیکن اپنی بیوہ ماں اور بے بس بہنوں کو دن میں کئی کئی بار مار دینے کے لئے ان میں ”جان“ابھی باقی ہے۔
وہ حالانکہ ایسے اکیلے کشمیری نوجوان نہیں ہیں کہ جنہیں سرکاری فورسز کا نشانہ بن کر تباہ ہونا پڑا ہو لیکن ہاں وہ اُن بد نصیبوں میں سے ضرور ہیں کہ جنہیں بہت زیادہ اور لگاتار سہنا پڑ رہا ہو۔
20سال کے محمد عامر کے گھر اور پھر اُنکی نیم اندھیری کوٹھری تک پہنچانے والے ایک لڑکے نے ایک دردناک ملال کے ساتھ کہا”یہ کوٹھری تو عامر کے لئے گویا ایک جیل ہے،گذشتہ چار سال سے اُنکی دنیا بس اسی ایک کمرے تک محدود ہو گئی ہے“۔ ڈاکٹروں نے تقریباََ اُمید چھوڑ دی ہے اور کہا ہے کہ وہ شائد اب کبھی بول پائیں گے اور نہ ہی اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوکر چلنے پھرنے کے قابل ہو جائیں گے۔عامر 2010کی عوامی تحریک کے دوران پولس اور دیگر سرکاری فورسز کے ہتھے چڑھے سینکڑوں نوجوانوں، بلکہ کمسنوں ،میں سے ایک ہیں۔ 2010میں پولس یا دیگر سرکاری فورسز کے ہاتھوں سوا سو کے قریب افراد،جن میں کمسن لڑکوں کی غالب تعداد شامل ہے،مارے گئے تھے جبکہ دسیوں زخمی ہو گئے تھے تاہم ان میں سے اکثر کے ظاہری زخم مندمل ہو گئے ہیں البتہ محمد عامر کے نصیب میں جیسے مدتوں تک2010کی ایک ڈراونی یاد کی طرح ناکارہ ہوئے رہنا لکھا تھا۔
پولس کاایک ٹیئر گیس شل لگ جانے سے اُنکے دماغ کا اگلا حصہ گویا یوں مجروح ہوا ہے کہ کبھی اپنی شوخ مزاجی کے لئے اپنے دوست احباب میں خاص شناخت رکھنے والے عامر کی بول چال بھی گئی اور اُٹھ بیٹھ بھی۔
دلچسپ مگر افسوسناک ہے کہ 2010کی عوامی تحریک کی شروعات بھی پولس کے ایک ٹیئر گیس شل سے ہی تب ہوئی تھی کہ جب سرینگر کے پائین شہر میں طفیل متو نام کے ایک معصوم بچے کے پولس کارروائی میں مارے جانے کے خلاف ہوئے احتجاج کو کچل دئے جانے کے لئے ہوئی مزید کارروائیوں نے وادی بھر میں احتجاج کی لہر اُٹھا دی تھی جبکہ سرکاری فورسز نے اپنی ”حکمتِ عملی“میں تبدیلی کئے بغیر ایک قتل پر ہونے والے احتجاج کو روکنے کے لئے دوسرا قتل کر دیا۔ یوں اموات و احتجاج کا ایک دائرہ بن گیا تھا اور وادی کے دیگر علاقوں کی ہی طرح سوپور قصبہ بھی مہینوں انگاروں پر رہا۔ –
اُس بد نصیب دن کو یاد کرتے ہوئے محمد عامر کی ماں کہتی ہیں”شام کا وقت تھا اور میں معمول کی طرح گھر کے کام کاج میں مصروف تھی کہ اچانک ہی شور ہوا….پھر مجھے لگا کہ صدائیں بُلند ہو رہی ہیں اور چیخیں ڈروانی ہوتی جا رہی ہیں،اس سے قبل کہ میں کچھ سمجھ پاتی مجھے لگا کہ ہمارے آنگن میں ایک جمِ غفیر پولس کے خلاف اور نہ جانے کیا کیا نعرے لگانے لگا“۔اُنکا کہنا ہے”میں جونہی باہر آئی میں نے دیکھا کہ ایک ایمبولنس میں میرے بچے کا خون میں لتھڑا ہو جسم تڑپ رہا ہے اور بس اسکے ساتھ ہی میں ایمبولنس میں سوار ہوئی اور ہم اسپتال کی جانب دوڑے“۔ایک عیاں خوف کے ساتھ وہ کہتی ہیں”اُس ایمبولنس کی سائرن میرے کانوں سے ابھی بھی نہیں جاتی ہے اور وہ دہشت اب بھی قائم ہے“۔
میڈیکل انسٹیچیوٹ صورہ میں ایک کے بعد ایک جراحی کے نتیجے میں بڑی ہی مشکل سے عامر زندہ تو رہے ہیں لیکن فقط سانس لینے کے لئے….گردن سے نیچے کا اُنکا بدن بے حرکت و بے جان ہے۔تب کے ایک چنچل اور شوخ لڑکے آج ایک بے جان جوان عامر بستر پر یوں پڑے ہیں کہ جیسے ہمیشہ ہی معذور رہے ہوں۔
میڈیکل انسٹیچیوٹ کے ڈاکٹروں کا حوالہ دیتے ہوئے محمد عامر کے لواحقین کہتے ہیں”اسپتال پہنچاتے وقت تو انکی حالت بہت خراب تھی اور ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ٹیئر گیس شل لگنے سے انکے سر کے داہنے حصے میں ایک گہرا سوراخ ہو گیا تھا جسکی وجہ سے دماغ اور حرام مغز دونوں کو شدید نقصان پہنچا ہے“۔ ڈاکٹروں نے اُنہیں بتایا تھا کہ عامر اب شائد ہی کبھی معمول کی طرح صحت یاب ہو پائیں گے بلکہ احتمال یہ ہے کہ عامر کا گردن سے نیچے کا حصہ ہمیشہ کے لئے ساکت رہے گا۔
عامر کے چچا عبدالسلام کہتے ہیں”پہلے تو داکٹروں نے کہا تھا کہ عامر کو ڈیڑھ سے دو مہینہ تک یوں ہی پڑے رہنے دینا ہے تاکہ اُنکے سر کا زخم ٹھیک ہو جائے اور وہ بحال ہوں لیکن اب ساڑھے چار سال ہونے کو آئے ہیں مگر وہ ایک زندہ لاش کی طرح ہے“۔
یہ ،اکیلے ،عامر کاہی حال نہیں ہے بلکہ اُنکی بیوہ ماں اور دو بالغ و بے بس بہنیں بھی جیسے ساڑھے چار سال پہلے آئے سکتے سے باہر ہی نہ آ پائی ہوں۔وہ سنبھلیں گی بھی کیسے کہ عامر کا مطلب ،اُنکے لئے،سب کچھ تھاجبکہ وہ ابھی بے مطلب کی زندگی جی رہے ہیں۔ جیسا کہ اُنکی ماں کہتی ہیں”ڈاکٹروں سے یہ سن کر تو میں سکتے میں آگئی تھی کہ عامر اب لقوے کا شکار رہے گا،اس بات کا دوسرا مطلب یہ تھا کہ عامر کا مقصد پوارا ہونے سے رہ جائے گا اور ہم کہیں کے نہ رہیں گے“۔
ایک سرد آہ کے ساتھ وہ عامر کی ادویات کا ڈبہ بند کرتے ہوئے کہتی ہیں”یہ(عامر کی جانب اشارے کے ساتھ)خوب بچت کرکے اپنی دونوں بہنوں کی شادی رچانے کے مقصد سے جی رہا تھا لیکن اب ….“۔
چھوٹی عمر میں ہی والد،محمد شفیع کنہ، کا سایہ سر سے اُٹھنے کے بعد محمد عامر کے گھر کا حال بُرا تھا اور ایسے میں اُنہوں نے اپنے اوپر ذمہ داریوں کے بوجھ کا خوب اندازہ کیا اور گھر کی کفالت کے لئے تعلیم جاری رکھنے کے باوجود بھی قصبے کے ایک تاجر کے یہاں سیلز مین کا کام کرنے لگے۔سب کچھ ٹھیک ہی چل رہا تھا کہ ایک بُری شام کو پولس نے،جیسا کہ اُنکے دوست احباب کہتے ہیں،ٹارگٹ فائر کر کے عامر کی دُنیا کو یوں ابر آلودہ کر دیا کہ یہاں سورج چڑھنے کے با وجود بھی اندھیرا قائم ہے۔
عامر کو اسپتال سے لوٹے ساڑھے چار سال گذرے ہیں اور تب سے وہ جیسے خود اپنے ہی جسم میں قید اپنی نیم اندھیری کوٹھری تک محدود ہو گئے ہیں۔کبھی سوپور کے گلی محلوں میں شوخیاں اور شرارتیں کر کر کے خود کو تھکانے والے عامر کا ابھی باہری دنیا کے ساتھ فقط یہ تعلق ہے کہ وہ اپنی کوٹھری کی ایک چھوٹی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہیں جہاں بچوں کا شور سنکر وہ تڑپ اُٹھتے ہیں حالانکہ وہ اپنی حالت پر رونے کے بھی قابل نہ رہے ہیں۔
عامر کی ماں کہتی ہیں”اپنے دوستوں کو اسکول جاتے دیکھ کر تو وہ بڑا جذباتی ہوتا ہے اور مغموم بھی،حالانکہ وہ بولنے سے قاصر ہے لیکن اُسکے چہرے کا اُتار چڑھاو اُسکے اندرون کا پتہ دیتا ہے اور اُسکی یہ نئی زبان اب ہم خوب سمجھنے لگے ہیں“۔عامر کے اچھے دنوں کو یاد کرتے ہوئے اُنکی ماں مزید کہتی ہیں”وہ بڑا تیز بچہ تھا اور پڑھائی کے ساتھ خوب لگاو رکھتا تھا،کبھی اسکول سے بھاگتا تھا نہ پڑھائی سے جی چُراتا تھا،ظاہر ہے کہ اب وہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہے تو دوستوں کو اسکول جاتے دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھتا ہے“۔
عامر کے علاج و معالجہ پر ابھی تک بڑا خرچہ آیا ہے جو برداشت کرنا اُنکی بے بس اور بیوہ والدہ کے لئے ظاہر ہے آسان نہیں تھا….اپنے بچے کے ”نئے جنم“کے لئے تاہم اُنہوں نے کسی افسوس کے بغیر سب کچھ تج دیا ہے۔اُنہوں نے اپنی ساری جائیداد بیچ کر ابھی تک ،کسی کامیابی کے بغیر،عامر کے ساکت بدن میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ وہ کہتی ہیں”حالانکہ ڈاکٹر بہت زیادہ پُر اُمید تو نہیں ہیں تاہم ایک اور جراحی تجویز کی گئی ہے جو بیرونِ کشمیر ممکن ہو سکتی ہے اور اس پر بڑا خرچہ آئے گا“۔ بیوہ ماں کے پاس ظاہر ہے کہ سرمایہ نہیں ہے لیکن عامر کی بہن اپنے بھائی کے لئے سارا پیار سمیٹ کر اپنی آواز میں عجیب سا یقین دلانے والی طاقت پیدا کرکے کہتی ہیں”ہم پیچھے نہیں بیٹھیں گے،کچھ بھی کرکے اس (عامر)کا ہر علاج کرواکے ہی رہیں گے“۔
اپنی بے بسی پر پشیماں اور بیوہ ماں و یتیم بہنوں کی باتیں سنتے ہوئے عامر ساکت ہیں لیکن جب اُنکے رخسار پر اچانک ہی ایک موٹا آنسو لڑھکنے لگا تو ایسا لگا کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں ،سب کچھ سمجھتے ہیں۔ یہ منظر دیدنی اور تڑپا دینے والا ہے اور عامر کی ماں بہنوں کے ارادے اس بات کو ممکن بتاتے ہیں کہ ایک معجزہ ہوگا،عامر کی ماں کو اُتنا سرمایہ دستیاب آئے گا کہ وہ اپنے لال کو باہر لیجا کر اُنکا مزید علاج کرواپائیں گی تاکہ عامر پھر چل پھر سکیں گے،اپنی بہنوں کے ہاتھ پیلے کروانے کا اپنا خواب پورا کرکے اپنی ماں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرتے دیکھیں گے….کیا کسی حاتم ، کسی خضر کا اُنکے گھر آنگن سے گذر ہوگا،کیا یہ معجزہ ہو پائے گا