(نمایندہ تفصیلات،سرینگر )
ریاستی انتظامیہ میں ہوئے حالیہ پھیر بدل کو لیکر جہاں خود حکمران پی ڈی پی کے اندر بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے وہیں بعض قابل اور سرگرم افسروں کو سیاسی پسند و نا پسند کے تحت تبدیل کئے جانے کو عوامی حلقے نا پسندیدگی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
بی جے پی کے ساتھ شراکت میں ’’حکومت کرنے والی‘‘ پی ڈی پی میں ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ تبادلوں کو لیکر پارٹی میں بے چینی ہے اور یہ تاثر کہ بی جے پی من مانی کرکے پی ڈی پی کو مجبور کر رہی ہے۔ ان ذرائع کے مطابق حالیہ ردوبدل میں بی جے پی نے ایک طرح سے زبردستی کرکے جموں کے افسروں کو اعلیٰ عہدوں پر گویا قابض کر دیا ہے جبکہ اس بارے میں پی ڈی پی کے ساتھ صلھ و مشورہ نہیں کیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ میٹنگ کے دوران بی جے پی لیڈر اور آبپاشی کے وزیر سکھنندن نے اپنی جیب سے ایک پرچی نکال کر سامنے رکھی اور اپنے من پسند انجینئروں کو محکموں کی کمان سونپی۔ان ذرائع کے مطابق مسٹر سکھنندن کی پسند اُس سے مختلف تھی کہ جو چیف سکریٹری کے ذریعہ ’’سرکار‘‘ نے مرتب کروائی تھی۔
یاد رہے کہ دو ایک روز قبل وزیرِ اعلیٰ مفتی سعید کی صدارت میں منعقدہ کابینہ میٹنگ کے دوران قریب چالیس بڑے افسروں کا تبادلہ عمل میں لایا گیا ہے جن میں کشمیر کے ڈویژنل کمشنر غضنفر حسین بھی شامل ہیں کہ جنہیں دو ماہ سے بھی کم وقت پہلے اس عہدے پر تعینات کر دیا گیا تھا۔
پی ڈی پی میں ذرائع کا مزید کہنا ہے ’’اب تو پارٹی میں بھی ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ بی جے پی دستِ بالا رکھتی ہے اور وہ لوگ اپنی پسند کو لیکر زیک طرح کی زبردستی کرتے ہیں،کئی افسر ایسے ہیں کہ جن کا تبادلہ نہیں ہونا چاہیئے تھا لیکن بہر حال وہ تبدیل ہوکر قدرے کم فعال جگہوں پر منتقل ہو گئے ہیں جبکہ بی جے پی کی پسند کے افسروں کو فعال عہدے ملے ہیں‘‘۔
عوامی حلقوں میں بھی اس طرح کا تاثر ہے اور یہ صورتحال ایک قسم کی بے چینی کو جنم دے رہی ہے۔محکمہ صحت کے ڈائریکٹر (کشمیر) ڈاکٹر سلیم الرحمان کا تبادلہ اس ھوالے سے ایک مثال ہے کہ جس پر سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر کھلے عام ناراضگی کا اظہار ہو رہا ہے۔ داکٹر سلیم الرحمان کو محکمہ صحت کے کمشنر کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے حالانکہ اُنکی خدمات کو عام و خاص قابلِ تعریف قرار دیتے آئے ہیں۔
اس حوالے سے ایک فعال اور نامور صحافی ریاض مسرور نے اپنے فیس بُک پر لکھا ہے ’’سرکار افسروں کو ناچ کرنے والوں کا ایک گروہ سمجھتی ہے کہ جو اسکے لئے تالیاں بجائے اور رقص کرے تاہم داکٹر سلیم کی طرح جو افسر وزیروں کے لئے تالیاں بجانے اور ناچ کرنے کی بجائے کام اور اصلاحات سے مطلب رکھتے ہیں اُنہیں پھینک دیا جاتا ہے ۔
پی ڈی پی کے ’’اقتدار‘‘ میں آنے کے بعد سے ابھی تک کے کئی سرکاری فیصلوں اور اقدمات کی جانب واضح اشارے کے ساتھ انہوں نے مزید لکھا ہے ’’مفتی صاحب! پہلے آئیڈیالوجی گئی ، پھر ڈیولوپمنٹ اور اب گورننس ….. سرکار تو خود اپنی موت کا پیغام لکھ رہی ہے‘‘۔
انڈین ایکسپریس کے صحافی میر احسان نے بھی اسی طرح،اپنے فیس بُک پر، ڈاکٹر سلیم کے کئی کام شمار کراتے ہوئے اُنکے تبادلے کو لیکر گویا اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
ریاض مسرور نے اپنے اظہارِ خیال پر ملے ردِ عمل پر مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے ’’وادی میں آئے سیلاب کے بعد ڈاکٹر سلیم کے اچھے کام کو سرکار نے باضابطہ تسلیم کر لیا تھا …… یا وہ غلط تھا یا اب اُنہیں شکار بنایا گیا ہے‘‘۔