(صریر خالد )
مئی میں یوم مزدور سے لیکر یوم آزادی صحافت تک کئی عالمی دن منائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے،بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی گذشتہ سترہ سال سے کئی دن منائے جاتے ہیں۔مقامی طور منائے جانے والے ان ”عالمی دنوں“میں 8 مئی بھی ہے……….جب شہر سرینگر کے خانیار علاقے میں (بھارتی)فورسز نے ایک آن میں اڈھائی درجن نہتے مسلمانوں کی جان لی تھی۔
گو علاقے کے لوگ یہ نہیں جانتے کہ کسی خاص دن کو عالمی سطح پر منائے جانے کا معیار و طریقہ کیا ہوتا ہے تاہم وہ کہتے ہیں ”ہمارا اپنا عالم ہے ،جہاں ہم اپنے پیاروں کی یاد میں دن مناتے ہیں اگرچہ ہماری یادیں کربناک اور رُلا دینے والی ہیں“۔
سترہ سال ہوئے،خانیار میں قتل کئے گئے 29 عام شہریوں کے قاتل کٹہرے تک پہنچے اور نہ ہی کوئی اور کارروائی ہوئی۔البتہ شیخ عبد القادر جیلانی (رح) کے آستانے کے دامن میں واقع خانیار کا وہ چوک اور یہاں کے لوگ ابھی اس واقعہ کو نہیں بھولے ہیں اور نہ ہی زمانے کے گردشِ دوراں نے اُس معصوم خون کو چھپانے میں کامیابی پائی۔
ہر سال8مئی کو دستگیر صاحب کے آستانے پر حاضری دینے والے آستانے کے اندر جاتے ہوئے یا یہاں سے باہر آنے پر ایک الگ ہی انداز میں پورے ماحول کو دیکھتے ہیں اور جیسے اُس قیامت کو یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس دن جو بھی یہاں سے گذرتا ہے اپنے شناساوں کے ساتھ اُس واقع پر بات ضرور کرتا ہے اور کریں بھی کیوں نہیں کہ اُس دن قتل عام کا شکار ہونے والوں کی قبریں جو پاس میں ہی اپنی مظلومی کا اشتہار بنی ہوئی ہیں۔
سفید داڑھی،جھریوں دار چہرے اور خمیدہ کمر والے ایک بزرگ کو جب میں نے خانیار کے مزار شہدائ میں فاتحہ خوانی کرتے دیکھا تو ،ایسا لگا کہ جیسے وہ کسی زندہ انسان کے ساتھ ہمکلام ہو…!
چاچا…….میری آواز پر وہ جیسے چوک پڑے…….حیرانگی کے عالم میں کچھ اس طرح میری جانب متوجہ ہوئے کہ جیسے وہ کسی کے ساتھ ہم کلام ہوں اور میں نے قطع کلامی کی ہو۔جھٹ سے میں پوچھ بیٹھا کہ چاچا کس کا فاتحہ پڑھ رہے ہو اور اُن کا جواب نہایت ہی پُر درد تھا…….حسرت بھری ایک آہ کے ساتھ انہوں نے کہا ”اپنے ارمانوں کا“۔
پھر میری جیسے ہمت ہی نہ ہوئی کہ مزید کوئی سوال کرتا …….مگر…….پیشہ ور ہوں نا کُریدنے کا عادی بھی اور احوالِ وطن سے بے دردی بھی تحفے میں ملی ہے۔گو دوائے دردِ دِل بیچنے والے ، مدت ہوئی ، دکان اپنی بڑھا چلے ہیں لیکن اپنی دکانیں تو لوگوں کے دردِ دل کی بِکری پر ہی چلتی ہیں……. سو میں نے ارمانوں کا ماتم کرنے والے اس بزرگ کو ایک سائڈ میں آکر کچھ سستانے کی دعوت دی اور وہ مان گئے۔
کچھ دیر کے لئے جیسے ماحول پر خاموشی کا قبضہ ہو گیا اور پھر اس بزرگ نے ، جو اُسی قبر پر ٹکٹکی باندھے ہوئے تھے کہ جہاں وہ خود کلامی کرتے ہوئے میری توجہ کا مرکز بن گئے تھے ،ایک آہ کے ساتھ کہا۔”یہ میرا بیٹا ہے،میرے بڑھاپے کی لاٹھی لیکن افسوس کہ میری اس لاٹھی کو ظالموں نے توڑ دیا“۔
اتنا کہنے پر اُن کی آنکھیں نم ہوئیں،وہ شائد چیخ چیخ کر روتے مگر ،ضبط کرتے رہے ۔میں اس بزرگ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا اور بہت چاہنے کے بعد بھی میں اُن سے مزید کچھ پوچھ نہیں پا رہا تھا،اتنے میں ایک صاحب قبرستان میں داخل ہو گیے،فاتحہ پڑھنے کے بعد انہوں نے کبوتروں کو دانہ ڈالا اور دیکھتے ہی دیکھتے کبوتروں کے کئی جُھنڈ دانہ چُگنے لگے ،کچھ دیر کے لئے میں جیسے اپنے بغل میں بیٹھے بزرگ کا درد بھول گیا اور کبوتروں کے جُھنڈ کو دیکھنے میں مست ہوگیا،پھر اچانک میں جیسے نیند سے بیدار ہوا کہ جب دانہ ڈالنے والے شخص نے میرے ساتھ بیٹھے بزرگ کو سلام کہا۔وہ نہ جانے کہاں خیالوں میں اپنے بڑھاپے کی ٹوٹی ہوئی لاٹھی کو جوڑنے کے جتن کر رہے تھے،سلام کا جواب نہ دے پائے ……. مگر میں نے سلام کہنے والے کو کلام پر اُکسایا۔
معراج الدین نامی اس شخص نے کہا کہ وہ اس بزرگ کو اکثر اس قبرستان میں آتے دیکھتے ہیں کہ 8 مئی 1991کو یہاں پیش آمدہ واقعہ میں انکا بیٹا بھی جاں بحق ہوا تھا۔سترہ سال قبل پیش آمدہ اس واقعہ کے اس چشم دید گواہ نے کہا”اُس دن ایک نزدیکی بستی میں کئی مجاہد مارے گئے تھے ،جن میں سے تین کی نعشوں کو ہزاروں لوگوں کے جلوس نے اس قبرستان میں لانے کی کوشش کی تاکہ انکی تدفین کی جائے۔آزادی و اسلام کے حق میں نعروں کی گونج تھی،نمناک آنکھیں تھیں اور فضا میں اللہ و اکبر کی صدائیں کہ اچانک گولیوں کی آواز آئی“۔معراج الدین مزید کہتے ہیں کہ ”مجھے آج بھی یاد ہے کہ فورسز کے جوانوں نے کسی اشتعال کے بغیر سوگواروں کے پُر امن جلوس پر براہ راست فائرنگ کی ،پہلے فورسز کی ایک گشتی پارٹی نے گولی چلائی اور پھر نزدیکی مورچوں میں کھڑے اہلکاروں نے مشین گنوں کے دہانے کھولے،دیکھتے ہی دیکھتے قیامت کا منظربپا ہوگیا“۔
انکے الفاظ میں”وہ تو قیامت کا منظر تھا،کئی لوگ گولیوں کا شکار ہوئے اور کئی ایک بھگدڈ مچ جانے سے روندے گئے،میں نے خود کئی نعشیں گرتے دیکھیں،کئی گھر لُٹتے دیکھے“۔معراج الدین کہتے ہیں کہ فائرنگ بند ہونے پر جائے واردات سے 29نعشیں ملیں جبکہ سینکڑوں لوگ زخمی تھے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ”اتنے پر بس نہ ہوا بلکہ ہمیں نعشوں کی تجہیز و تکفین کی اجازت بھی نہ ملی،کرفیو کا اعلان کیا گیا اور اگلے دن چند گھنٹوں کی مہلت دے کر نعشوں کو چُپکے سے دفنانے کا حکم ملا،یوں کہیئے کہ ہمیں ٹھیک سے ماتم بھی نہیں کر نے دیا گیا“۔
اس واقعہ کی گونج وادی کشمیر کے ارد گرد دیواروں کی مانند موجود بلند قامت پہاڈوں کو چیرتے ہوئے دور دنیا تک پہنچی اور پھر تحقیقات کا اعلان ہوا جس میں فورسز کو ملوث پایا گیا۔لوگوں نے ایک فاضل جج کے ذریعہ کرائی گئی اس تحقیقات میں، اس خیال کے ساتھ کہ قاتلوں کو سزا ملے گی،بڑی دلچسپی لی ،انکی خواہش یہاں تک پوری ہوئی کہ تحقیقات میں فورسز کو قصور وار قرار دیا گیا مگر…….خانیار کے لوگ آج بھی 8مئی کے قاتلوں کو کٹہرے میں کھڑا دیکھنے کے منتظر ہیں…انتظار…….جو مگر شائد ہی کبھی ختم ہوگا۔
معراج الدین کہتے ہیں ”قاتلوں کو سزا تو نہیں دی جائے گی لیکن ہم بھی ،اس واقعہ کی یاد کو اپنے دل و دماغ سے جانے نہیں دیں گے،ہم یہ دن مناتے رہیں گے اور اپنے بچوں کو ان واقعات کے بارے میں بتاتے رہیں گے“۔معراج الدین کہتے ہیں کہ علاقے کے لوگ ہر سال اس دن کو یہاں فاتحہ پڑھنے کے لئے آتے ہیں اور اُس واقعہ کی یاد کو تازہ کرتے ہیں۔
تاریخ کے مضمون کی ڈگری لیکر دکانداری کرنے والے معراج الدین کہتے ہیں ”ہم نہیں جانتے ہیں کہ کسی خاص معاملے کو لیکر عالمی سطح پر دن منانے کا معیار کیا ہوتا ہے،لیکن ہم اپنی چھوٹی سی دنیا میں8مئی کو اس طرح مناتے ہیں کہ جیسے یوم ظلمات منا رہے ہوں،ہم بے بس ضرور ہیں لیکن ہمارا انتقام یہ ہے کہ ہم اس دن کو یاد کرتے رہیں گے اور آنے والی نسلوں کو ان جیسے واقعات کی یاد وراثت میں دیں گے،دیر سویر انصاف ضرور ہو کے رہے گا“۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں ”آزادی کی تحریک“کے دوران خانیار میں پیش آمدہ واقعہ کے جیسے درجنوں واقعات رونما ہوئے ہیں اور ان میں ملوث فورسز کی سزا نہیں دی گئی ہے۔
اب ،کچھ دیر پہلے تک ،آہنی ارادوں کے مالک ظاہر ہونے والے معراج الدین کی آنکھیں بھی نم تھیں…….وہ سسکیوں کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ انکا اپنا بھائی بھی 8مئی کا شکار ہوا تھا،وہ قبرستان سے باہر جانے لگے ،میری نظر بڑھاپے کی لاٹھی کھو چکے بزرگ پر گئی جن کی آنکھیں اب پوری طرح تر تھیں،میں نے ہچکچاہٹ کے ساتھ اُنسے انکا نام پوچھا۔میں نے کہا”چاچا آپکا نام کیا ہے“اس بار وہ چُپ نہ رہے،مگر انکے جواب نے مجھ میں انسے مزید کچھ بھی پوچھنے کی ہمت باقی نہ چھوڑی ،انہوں نے دھیمی اور ڈوبتی آواز میں اپنا نام بتایا…….مظلوم……….میرا نام مظلوم ہے۔
نوٹ:جموں و کشمیر میں جاری ”تحریکِ آزادی‘‘ کے دوران فوج کی جانب سے قتلِ عام کے متعدد واقعات انجام دئے گئے ہیں جن کی برسوں گذر جانے کے بعد بھی نہ کوئی تحقیقات ہوئی اور نہ ہی قصورواروں کو سزا دی جا سکی۔ایسے کئی واقعات میں سے ایک 8 مئی 1991 کا بھی ہے کہ جب خانیار سرینگر میں اڈھائی درجن افراد کو جاں بحق کیا گیا تھا۔ پیش ہے اس حوالے سے صریر خالد کی ،برسوں پُرانی،ایک صدا بہار تحریر جسے آج 8 مئی کی مناسبت سے دہرایا جا رہا ہے……..تفصیلات ڈاٹ کام