نئی دلی// ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں نے ایک شکایتی خط لکھنے کے علاوہ میڈیا کے سامنے آکر چیف جسٹس آف انڈیا کے اختیار کو چلینج کیا ہے اور ملک میں جمہوریت کو خطرے سے دوچار بتایا ہے۔ اپنی نوعیت کے پہلے واقعہ میں چاروں جج صاحبان نے ایک ساتھ میڈیا کے سامنے ایک پریس کانفرنس کی اور اپنے زبردست خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا۔
ایک خط اور پریس کانفرنس میں چار جج صاحبان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس عدالتی اصولوں کے خلاف اپنی پسند کے مطابق مختلف بینچوں کو کیسز متعین کرتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ جب تک عدالتی ضابطہ کار کی پاسداری نہیں کی جائے گی تو ملک میں جمہوریت نہیں رہے گی۔یہ پہلی بار ہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے پریس کانفرنس کی ہے۔
جن چار سینیئر ترین جج صاحبان نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف پریس کانفرنس کی ہے ان میں جسٹس جے چلاسپیشمر، جسٹس رانجن گوگوئی، جسٹس مدن لوکر اور جسٹس کرین جوزف۔
یہ پریس کانفرنس سپریم کورٹ کی ریذیڈنس پر ہوئی۔ سپریم کورٹ کے دوسرے سینییر ترین جج جسٹس جے چلاسپیشمر نے کہا ’ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہ ادارہ نہیں بچا تو اس ملک میں جمہوریت نہیں بچ سکے گی اور نہ ہی کسی اور ملک میں۔ اور منضف عدلیہ اچھی جمہوریت کے لیے کی جانب اشارہ ہے۔‘انھوں نے مزید کہا ’چونکہ ہماری تمام تر کوششیں بے سود ثابت ہوئیں یہاں تک کہ آج صبح بھی ہم چیف جسٹس کے پاس گئے اور ان سے درخواست کی۔ لیکن ان کے ساتھ ان کے پوائنٹ پر متفق نہیں ہو سکے۔ اس کے بعد ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ ملک کو بتایا جائے کہ عدلیہ کا خیال کرو۔‘
انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ ان کے پاس میڈیا سے بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے ان کے تحفظات سننے سے انکار کر دیا تھا۔
جسٹس جے چلاسپیشمر نے مزید کہا ’میں نہیں چاہتا کہ 20 سال بعد اس ملک میں ایک سوج بوجھ رکھنے والا شخص کہے کہ جے چلاسپیشمر، رانجن گوگوئی، مدن لوکر اور کرین جوزف نے اپنا ضمیر بیچ دیا۔‘
عدالتی ضوابط کے مطابق جج صاحبان میڈیا سے براہ راست بات نہیں کرتے تاکہ کیسز میں غیر جانبدار رہیں۔ سپریم کورٹ کے چار سینیئر ترین ججوں کی جانب سے پریس کانفرنس کے باعث وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر قانون روی شنکر کے ساتھ فوری طور پر ملاقات کی۔
ان چار جج صاحبان نے چیف جسٹس کے نام ایک خط بھی لکھا ہے جس میں سپریم کورٹ کے ’چند عدالتی احکامات‘ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ ان احکامات کی وجہ سے عدالتی کارروائی متاثر ہو رہی ہے۔انھوں نے خط میں لکھا ہے کہ ان کے پاس میڈیا سے بات کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے ان کے تحفظات سننے سے انکار کر دیا تھا۔