حیدرآباد// یونائیٹیڈ مسلم فورم کا ایک ہنگامی اجلاس برائے غور وفکر قانون سازی طلاق ثلاثہ بل صدر مولانا محمد رحیم الدین انصاری کی صدارت میں منعقد ہوا، اس میں مولانا سید قبول بادشاہ شطاری،مولاناخالد سیف اللہ رحمانی ،مولانا میر قطب الدین علی چشتی، مولانامحمد حسام الدین ثانی جعفر پاشاہ، مولانا شاہ محمد جمال الرحمن مفتاحی، مولانا صفی احمد مدنی،مسٹر ضیاء الدین نیر(نائب صدور) مسٹر سید منیر الدین احمد مختار(جنرل سکریٹری) مولاناسید احمد الحسینی سعید قادری(خازن) مولانا سید ظہیر الدین علی صوفی، مولانا فضل اللہ قادری،مولانا تقی رضا عابدی، مولانا مسعود حسین مجتہدی،مفتی صادق محی الدین ،مفتی معراج الدین ابرار،مولانا اکرم پاشاہ تخت نشین،مولانا ظفر احمد جمیل، مولانا عبد الغفار سلامی، ڈاکٹر مشتاق علی، ڈاکٹر مجتبیٰ حسین، مسٹر عمر احمد شفیق، اس کے علاوہ دیگر اراکین نے شرکت کی۔
اس اجلاس میں قانون سازی طلاق ثلاثہ بل کے نقصانات پر غور وفکر کیا گیا، شرکاء کا عام احساس یہ تھا کہ حکومت اس معاملے میں جانبدار ہے، اگر وہ مخلص ہوتی تو بل پیش کرنے سے پہلے وہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور شریعت کے ماہر علماء کرام سے طلاق ثلاثہ کے معاملہ پر بات کرتی، اور ان کی تجاویزکو اساس وبنیاد بنا کر بل کا مسودہ تیار کرتی۔
یونائیٹیڈ مسلم فورم نے پارلیمنٹ میں اس بل کے منظور ہونے کی تاریخ کو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے 6دسمبر کے بعد دوسرا سیاہ دن قرار دیا، اور بل کو دستور ہند کی روح کو مجروح کرنے والا بتایا، اور اس کے ذریعہ مسلم پرسنل لا میں مداخلت کو بے معنی قرار دیا؛ کیوں کہ دستور میں ملک کے ہر شہری کو مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی، حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ طے کرے کہ کس مذہب کا کون سا عمل اچھا ہے اور کون سا عمل اس کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے،یہ اس مذہب پر عمل کرنے والے کا اختیار ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے یا نہ کرے، جب مسلمان خود چاہتے ہیں کہ ان پر شریعت کاقانون ہو اور وہ اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو حکومت کا اس میں رکاوٹ بننااور اپنی رائے کو تھوپنا مناسب نہیں ہے، اور دستور ہند میں جو آزادی دی گئی ہے اس کی مخالفت ہے۔
یونائیٹیڈ مسلم فورم نے کہا کہ طلاق ثلاثہ بل سے خواتین کے مسائل کم نہیں ہوں گے، بلکہ اس میں اور اضافہ ہوگا، فورم کے ذمہ داران نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ میں جو بل پیش کیا گیا ہے، اس کی تمام مسلمانان ہند مخالفت کرتے ہیں، یہ شریعت اسلامی میں کھلی مداخلت ہے،99 فیصد مسلم خواتین مسلم پرسنل لا کی حمایت میں ہیں، اور اس بل کی شدید مخالفت کرتی ہیں، اس سے خاندانی اور گھریلو مسائل کے متاثر ہونے کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں-
انہوں نے مسلمانوں سے گزارش کی ہے کہ وہ اپنے مسائل دار القضاء(شرعی عدالتوں) سے رجوع کریں۔فورم نے تمام ائمہ وخطباء سے ا پیل کی ہے کہ و ہ جمعہ کے خطبات میں اس موضوع کو عوام الناس کے سامنے پیش کریں، اس فتنہ سے نجات کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔