ممبئی// اپنی ماں کے ساتھ فون پر آخری مرتبہ بات کرنے کے بعد 43سالہ ریتوراج ساہنی کل اتوار کو امریکہ سے گھر لوٹ آئے تو اُنہیں وہاں ماں کی جگہ اُنکی ہڈیوں کا ڈھانچہ ملا۔یہدہلادینے اور بزرگ والدین کی حالتِ زار بیان کرنے والا واقعہ ممبئی کے اندھیری (ویسٹ)میں ایک امیرانہ سوسائٹی بیل اسکاٹ ٹاور میں پیش آیا ہے۔
”ریتوراج ماں سے ملنے سال میں ایک یا دوبار آتے رہے ہیں۔اُنہوں نے آخری بار اپریل میں اپنی ماں کے ساتھ فون پر بات کی تھی“۔
پولس کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران ہڈیوں کا ڈھانچہ ریتوراج کی والدہ 63سالہ آشا ساہنی کا ثابت ہوا ہے کہ جو بیل اسکاٹ ٹاور کی 110ویں منزل پر اپنے گھر میں اکیلے رہتی آرہی تھیں۔آشا ساہنی کے بیٹے ریتوراج امریکہ کی ایک انفارمیشن ٹیکنالوجی(آئی ٹی)کمپنی میں کام کرتے ہیں جہاں وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہیں تاہم یہ پتہ نہیں چل پایا ہے کہ اُنکا اپنا کوئی بچہ بھی ہے یا نہیں۔پولس کا کہنا ہے”ریتوراج ماں سے ملنے سال میں ایک یا دوبار آتے رہے ہیں۔اُنہوں نے آخری بار اپریل میں اپنی ماں کے ساتھ فون پر بات کی تھی“۔پولس کا کہنا ہے کہ ریتوراج نے کہا ہے کہ ممبئی میں اُنکا کوئی رشتہ دار بھی نہیں ہے کہ جو کبھی آشا ساہنی کو دیکھنے کیلئے آگیا ہوتا۔
اُنہوں نے گھنٹی بجائی اُنہیں کوئی جواب نہیں ملا۔چناچہ گھر کا دروازہ اندر سے بند تھا لہٰذا اُنہوں نے ایک چابی ساز کو بلاکر دوسری چابی بنوائی اور اندر جاکر اُنہوں نے دیکھا کہ اُنکی ماں جانے کب مر گئی تھیں اور اُنکی لاش پوری طرح ختم ہوچکی تھی اور فقط ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا تھا۔
معلوم ہوا ہے کہ ریتوراج ساڑھے تین بجے امریکہ سے ممبئی میں اپنے فلیٹ پر پہنچے اور جب اُنہوں نے گھنٹی بجائی اُنہیں کوئی جواب نہیں ملا۔چناچہ گھر کا دروازہ اندر سے بند تھا لہٰذا اُنہوں نے ایک چابی ساز کو بلاکر دوسری چابی بنوائی اور اندر جاکر اُنہوں نے دیکھا کہ اُنکی ماں جانے کب مر گئی تھیں اور اُنکی لاش پوری طرح ختم ہوچکی تھی اور فقط ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا تھا۔بعدازاں ریتوراج نے اوشیوارا پولس تھانہ کو مطلع کیاجس نے آکر لاش کو پوسٹ مارٹم کیلئے بھیجدیا۔اس سلسلے میں حادثاتی موت کا ایک معاملہ درج کیا گیا ہے۔معاملے کو دیکھ رہے انسپکٹر ارجن راج کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی موت کی وجہ جانی جاسکتی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ چونکہ دروازہ اندر سے بند تھا لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ آشا ساہنی قدرتی موت مری ہیں تاہم وہ پروسیوں اور سوسائٹی کے سکیورٹی اہلکاروں سے یہ پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کیا اُنہوں نے اس فلیٹ سے کبھی بد بو آتے محسوس کی ہے یا نہیں۔