سماج کے مختلف طبقات کا جی ایس ٹی مخالف اتحاد،لڑائی کی دھمکی

سرینگر// آج جبکہ سرکار نے ریاست میں جی ایس ٹی کے نفاذ کے لئے اسمبلی کا اجلاس بلایا ہوا ہے تاجروں،صنعت کاروں اور سماج کے دیگر طبقوں نے اتحاد کرکے مشترکہ طور مزاحمت کرنے کا اعلان کردیا ہے۔تاجروں اور صنعت کاروں کی مختلف تنظیموں نے ایک کارڈینیشن کمیٹی بنائی ہے جس نے آج بازار میں سیاہ پرچم لہرانے کے علاوہ اسمبلی کا اجلاس جاری رہنے کے دوران ایوان کے باہر دھرنا لگانے کی کال دی ہوئی ہے۔کمیٹی نے دھمکی دی ہے کہ جی ایس ٹی میں ترمیم کئے بغیر اس قانون کے ریاست میں نفاذ کے خلاف امرناتھ شرائن بورڈ کو زمین دئے جانے کے خلاف ہوئی ایجی ٹیشن کی طرز پر احتجاج شروع کرنا خارج از امکان نہیں ہے۔

کل یہاں ایک پریس کانفرنس کے دوران کمیٹی نے سخت تیور دکھائے اور کہا کہ جی ایس ٹی کو موجودہ حالت میں نافذ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ہائی کورٹ کے سابق جج حسنین مسعودی نے کہا کہ لوگوں اور تاجروں کو اس قانون کے اطلاق پر جو تحفظات ہیں،انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔اُنہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت دیگر ملکوں میںرائج جی ایس ٹی ماڈل پر تحقیق کرکے موافق اور بہتر نمونے کا انتخاب کرکے اسے نافذ کرے اور اس میں کسی قسم کی عجلت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہیئے۔اُنہوں نے واضح کیا کہ کشمیر کی سیول سوسائٹی ٹیکس اصلاحات کے خلاف نہیں ہے،تاہم ریاست کی خصوصی پوزیشن کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ریاست کو خصوصی پوزیشن حاصل نہیں ہوتی اور اسکی اہمیت نہ ہوتی تو پھر پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے کسی بھی قانون میں”ماسوائے جموں کشمیر“کے الفاظ درج نہیں ہورہے ہوتے۔حسنین مسعودی نے کہا کہ اس ایک جملے میں اُن سارے سوالات کا جواب ہے کہ جو جی ایس ٹی کے نفاذ سے متعلق جاری تنازعے پر اُٹھائے جا رہے ہیں۔سابق جج نے کہا کہجی ایس ٹی کو موجودہ حالتمیں لاگو کرنے کے بعد ریاستی سرکار کے پاس حصول ٹیکس،اس کے نرخ طے کرنے اوربعض اشیاءکواستثنیٰ دینے کا اختیار باقی نہیں رہے گا اور یوں ریاست ”مالی خود مختاری“کھو دے گی۔

کشمیر کارڈی نیشن کمیٹی کو2008کی طرز پر تشکیل دیا گیا ہے اور اگر سرکار نے من مانی کرنے کی کوشش بھی کی،کمیٹی 2008کی طرح احتجاجی پروگرام دینے پر مجبور ہو جائے گی۔

کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر ڈاکٹر مبین شاہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ کشمیری عوام،تاجر اور صنعت کار کسی بھی طور وہ جی ایس ٹی قبول نہیں کرینگے،جس سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو زک پہنچے کا احتمال ہو۔اُنہوں نے کہا کہ حکومت یا اپوزیشن پر ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے ممبرانِ اسمبلی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ریاست کی خصوصی پوزیشن کا تحفظ کریں۔ ڈاکٹر مبین شاہ نے کہا کہ کشمیر کارڈی نیشن کمیٹی کو2008کی طرز پر تشکیل دیا گیا ہے اور اگر سرکار نے من مانی کرنے کی کوشش بھی کی،کمیٹی 2008کی طرح احتجاجی پروگرام دینے پر مجبور ہو جائے گی۔

پریس کانفرنس میں بولتے ہوئے سراج احمد سراج نے کہا کہ جہاں بھارت کی دیگر ریاستوں میں اس قانون کی تیاری میں17برس لگ گئے وہیںجموں کشمیر سرکار اس قانون کو راتوں رات نافذ کرنے کے لئے اُتاولی ہورہی ہے۔اُنہوں نے حکومت کو بھی خبردار کیا کہ جی ایس ٹی کے قانون میں ریاستی مفادات کے موافق ترمیم کئے بغیر اس قانون کو لاگو کئے جانے کے سنگین نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔پریس کانفرنس میں کئی تاجر،سیول سوسائٹی مممبران ،انٹرپرینرس اور دیگر متعلقہ اشخاص شامل تھے اور اُن سبھی کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ریاستی سرکار کو کسی بھی طرح من مانی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔معترض شخصیات کا ماننا ہے کہ اگر سرکار ریاستی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنا الگ جی ایس ٹی بناتی ہے تو ریاستی عوام کو نہ صرف یہ کہ اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہوگا بلکہ اسے بخوشی قبول کرتے ہوئے کامیاب بھی بنایا جائے گا۔

Exit mobile version