سرینگر// سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو ایک ”ناکارہ“ادارہ کہتے ہوئے کہا ہے کہ کئی لوگ یہاں تک بھی سوچتے ہیں کہ اس ادارے کو قائم رکھنے کی کوئی ضرورت ہیں نہیں ہے۔ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ اگرچہ عام طور پر ایسے ادارے ملک اور قوم کےلئے نیک شگون ہوتے ہیں اور ملک اور قوم کو ایسے اداروں کے طفیل عزت اور آبرو حاصل ہوتی ہے مگر نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو فقط اسکے کچھ نہ کرنے کے لئے ہی جانا جاتا ہے۔
”مجھے افسوس ہے کہ اس کمیشن کو ہندوستان میں اپنے فرائض کے تحت کوئی کام سرانجام دینے کےلئے نہیں جانا جاتا ہے “۔
پروفیسر سوز نے مزید کہا ہے کہ جسٹس کرشنا ایر اور چند دیگر جج صاحبان نے سپریم کورٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد یہ مشورہ دیا تھا کہ جج صاحبان کو ریٹائرمنٹ کے بعد سرکار میں کوئی کام نہیںسوپنا جانا چاہئے کیونکہ ان کو کوئی ذمہ داری سوپنے سے سماج کے عام لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے” آج کے نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے اپنے وجود اور کام کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کیا اور انسانی حقوق کی حفاظت کا تو سوال ہی نہیں ہے“۔
سیف الدین سوز نے مزید کہا ہے کہ انہوں نے وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع میں فوج کے میجر گگوئی کی جانب سے فاروق احمد ڈار نامی ایک نوجوان کو انسانی ڈھال کے بطور استعمال کئے جانے کی کمیشن میں شکایت درج کرائی تھی لیکن ابھی تک اس بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔سابق مرکزی وزیر کا کہنا ہے” ابھی تک کمیشن نے صرف اتنا ہی بتایا ہے کہ میری شکایت کو ڈائیری نمبر 57850/CR/2017. کے تحت درج کیا گیا ہے“۔انہوں نے کہا ہے ”مجھے افسوس ہے کہ اس کمیشن کو ہندوستان میں اپنے فرائض کے تحت کوئی کام سرانجام دینے کےلئے نہیں جانا جاتا ہے “۔