نئی دہلی//
بھارتی سپریم کورٹ نے مسلمانوں میں طلاقِ ثلاثہ کو رشتہ ختم کرنے کا نا پسندیدہ طریقہ قرار دیا ہے ۔چیف جسٹس جے ایس کیہر کی صدارت والی پانچ رکنی بنچ نے سماعت کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ تین طلاق شادی توڑنے کا نہایت ہی بدتر اور ناپسندیدہ طریقہ ہے ۔ آئینی بنچ کے دیگر اراکین میں جسٹس کورین جوسف، جسٹس روہنگٹن ایف نریمن، جسٹس ادے امیش للت اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں۔اس بنچ میں سکھ،عیسائی، پارسی ، ہندو اور مسلمان فرقے سے ایک ایک جج رکھے گئے ہیں تاکہ اس کے حتمی فیصلہ پر کوئی سوال نہ کھڑا کیا جائے ۔
فورم فار اویرنس آف نیشنل سیکورٹی کی طرف سے اس معاملے کی پیروی کررہے سینئر وکیل رام جیٹھ ملانی نے بھی کہا کہ تین طلاق آئین کی دفعہ 14کے تحت دئے گئے اختیارات کی خلاف ورزی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آئین کی دفعہ 14 اور 15 تمام شہریوں کو مساوات کا حق دیتے ہیں اور ان کی روشنی میں تین طلاق غیر آئینی ہے ۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ دیگر مذاہب کی طرح اسلام کے بھی طالب علم ہیں ۔
سماعت کے دوران جسٹس کیہر نے معاملے میں ذاتی حیثیت میں عدالت کی مدد کرنے والے وکیل سلمان خورشید سے پوچھا کہ کیا تین طلاق مذہب اسلام میں محض ایک رواج ہے یا اس کا لازمی حصہ ۔ آئینی بنچ نے یہ جاننا چاہا کہ کیا ایسا کوئی رواج جو گناہ ہو شریعت کا حصہ ہوسکتا ہے ۔ کیا کسی بھی گناہ کو خداکی مرضی تسلیم کیا جاسکتا ہے یا پھر اسے انسانوں کا بنایا ہوا قانون کہنا زیادہ درست ہوگا۔کیا ہندوستان سے باہر بھی تین طلاق کا چلن ہے ۔ عدالت نے یہ بھی جاننا چاہا کہ دوسرے ملکوں میں اس رواج کو کیسے ختم کیا گیا۔
سلمان خورشید نے بتایا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی نظر میں طلاق ایک گھناونا لیکن جائز رواج ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی نجی رائے میں تین طلاق گناہ ہے اور اسلام کسی بھی گناہ کی اجازت نہیں دے سکتا ۔انہوں نے کہا کہ تین طلاق جیسا گناہ شریعت کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ صرف ہندوستانی مسلمانویں میں ہی تین طلاق کا چلن ہے ۔خیال رہے کہ عدالت عظمی نے کل ہی واضح کردیا تھا کہ پہلے یہ طے کرے گا کہ تین طلاق کا رواج اسلام کا بنیادی حصہ ہے یا نہیں ۔ اگر ہے تو کیا اسے بنیادی حق کے تحت نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ عدالت نے واضح کیا ہے کہ اگر آئینی بنچ اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ تین طلاق اسلام کا بنیادی حصہ ہے تو وہ اس کے آئینی جواز کے سوال پر غور نہیں کرے گا۔