نئی دلی (تفصیلات نیوز)
بھارت کی سپریم کورٹ نے ایودھیا میں رام مندر اور بابری مسجد تنازعے پر طرفین کو تجویز دی ہے کہ وہ اس کے حل کے لیے بات چیت کے ذریعے تازہ کوششیں کریں۔سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ مذہب اور عقیدے سے وابستہ ”حساس اور جذباتی“ معاملہ ہے۔
چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے سماعت کے دوران کہا کہ اس طرح کے مذہبی مسئلے بات چیت کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں اور انھوں نے اس معاملے کے قابل قبول حل کے لیے ثالثی کی پیشکش کی۔انھوں نے کہا ”یہ مذہب اور جذبات سے وابستہ مسئلے ہیں۔ یہ ایسے مسئلے ہیں جن پر تمام فریقین ساتھ مل کر ایک فیصلے پر پہنچیں اور اس تنازعے کو ختم کریں۔ آپ سب مل بیٹھ کر پرامن مذاکرات کریں“۔خیال رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر سبرامنیم سوامی نے عدالت عظمیٰ میں ایودھیا معاملے کی فوری طور پر سماعت کے لیے درخواست داخل کر رکھی ہے جس کے جواب میں عدالت نے یہ تبصرہ کیا ہے۔
سبرامنیم سوامی نے گذشتہ ماہ بی بی سی کے فیس بک لائیو میں کہا تھا کہ ایودھیا میں دو سال کے اندر اندر وہ رام مندر بنوائیں گے اور وہیں بنوائیں گے جہاں وہ پہلے سے موجود ہے۔انہوں نے کہا تھا”ہم کہیں اور رام مندر نہیں بنا سکتے کیونکہ یہ عقیدے کا معاملہ ہے“۔ایودھیا میں رام مندر اور بابری مسجد تنازعے پر سپریم کورٹ کے تازہ مشورے کو بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے ٹھکرا دیا ہے جبکہ وزیر قانون اور وشو ہندو پریشد نے اس مشورے کا خیر مقدم کیا ہے۔
بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے ایک رکن سید قاسم رسول الیاس کا کہنا ہے ”ت چیت کا مطلب سرینڈر کر دینا ہے“۔انھوں نےبرٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کوبتایا”الہ آباد ہائی کورٹ (2010 کا فیصلہ) کا فیصلہ آنے سے پہلے، وزیر اعظم وی پی سنگھ کے زمانے میں وشو ہندو پریشد کے ساتھ کئی دور کی بات چیت ہوئی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا“۔
الیاس نے مزید کہا”دوسری بات یہ ہے کہ جب دوسری پارٹی نے یہ کہہ رکھا ہے کہ یہ رام جنم بھومی ہے، یہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے، آپ اس کو چھوڑ دیں تو ہم آگے کیا بات کریں گے“؟سنہ 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو¿ بنچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ جس جگہ پر رام کی مورتی رکھی ہے وہ وہیں رہے گی اور باقی زمین کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔اس میں سے ایک حصہ سنی وقف بورڈ کو دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ اگر تمام فریقین چاہیں تو عدالت پرنسپل مذاکرات کار مقرر کرنے کے لیے تیار ہے۔تین رکنی بینچ نے مسٹر سوامی سے کہا کہ وہ اس بارے میں فریقین سے بات کر کے عدالت کو 31 مارچ تک آگاہ کریں۔